وسطی نظام شمسی
وسطی نظام شمسی
Image by Chil Vera from Pixabay
Image by Chil Vera from Pixabay
آخری 4 دیوہیکل سیارے، ان کے چاند اور کم مدت کی عمر کے دمدار ستارے وسطی نظام شمسی کا حصہ ہیں۔ بعض اوقات اسے بیرونی نظام شمسی بھی کہا جاتا ہے تاہم عصر حاضر میں یہ نیپچون سے پرے بعید خطے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ سورج سے بعید خطہ ہونے کی وجہ سے وسطی نظام شمسی کی ٹھوس اشیاء میں پانی اور امونیا کا تناسب کچھ زیادہ ہے کیونکہ انتہائی کم درجہ حرارت ان مرکبات کو ٹھوس حالت میں برقرار رہنے کی صلاحیت دیتا ہے۔ وسطی نظام شمسی کے دیوہیکل سیاروں Planets کا تعارف درج ذیل ہے۔
مشتری Jupiter
مداروی گردش میں محوِ گردش تمام سیاروں کی کل کمیت کی 99 فیصد شرح کے 4 بیرونی سیارے حامل ہیں۔ مشتری کی فضاء ہائیڈروجن اور ہیلیم پر مشتمل ہے جبکہ نیپچون اور یورینس پر مختلف برفانی مادے مثلاً پانی، امونیا اور میتھین کثیر مقدار میں پائےجاتے ہیں۔ ان برفانی مادوں کی بدولت ماہرین یورینس اور نیپچون کو الگ زمرے میں تصور کرتے ہیں۔ انہیں وہ یورانی سیارے یا برفانی جن کے نام سے پکارتے ہیں۔ ان چاروں سیاروں کے گرد حلقے موجود ہیں تاہم سیارہ زحل کے حلقے مشاہدے میں واضح دکھائی دیتے ہیں مشتری نظام شمسی کا سب سے بڑا سیارہ ہے۔ یہ زمین سے 318 گنا زیادہ بھاری ہے اور اس کا سورج سے اوسط فاصلہ 5.2 فلکیاتی اکائیوں پر مشتمل ہے۔ مشتری کی ساخت ہائیڈروجن اور ہیلیم پر مشتمل ہے۔ مشتری اندرونی حرارت کی بدولت کچھ مستقل خصوصیات کا حامل ہے ان میں بادلوں کے جمگھٹے اور عظیم سرخ طوفان قابل ذکر ہیں جو کئی سو سالوں سے جاری ہے۔ مشتری نظام شمسی کے دیگر سیاروں میں سے سب سے بڑے مقناطیسی میدان کا حامل ہے۔ اس کا مقناطیسی خطہ 2 کروڑ 20 سے 90 لاکھ کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔ مشتری کی کمیت دیگر سیاروں سے اڑھائی گنا زیادہ ہے۔ مشتری کے 80 چاند ہیں جن میں گینیمیڈ، کالسٹو، آئی او اور یورپا قابل ذکر ہیں۔ یہ چاند ایسی خصوصیات کے حامل ہیں جو زیادہ تر سیاروں میں پائی جاتی ہیں مثلاً اندرونی حرارت اور آتش فشانی۔ گینیمیڈ نظام شمسی کا سب سے بڑا چاند ہے۔ یہ عطارد سے بھی بڑا ہے، کالسٹو سیارے کی کمیت اور حجم گینیمیڈ کے تقریباً قریب قریب۔پایا جاتا ہے۔
مشتری Jupiter Image by Daniel Roberts from Pixabay |
زحل Saturn
اپنے مشہور حلقوں کے ساتھ زحل سورج سے چھٹا قریب ترین سیارہ ہے۔ زحل سورج سے 9.5 فلکیاتی اکائیوں کی دوری پر محو گردش ہے۔ یہ زمین سے 95 گنا زیادہ بھاری ہے۔ ماحولیاتی ساخت اور مقناطیسی میدان کے لحاظ سے یہ مشتری کے قریب تر ہے تاہم اس کی کل کمیت مشتری کی کمیت کا 60 فیصد بنتی ہے۔ زحل کی کثافت دیگر سیاروں سے قدرے کم ہے یہ واحد سیارہ ہے جسے اگر تصوراتی سمندر میں پھینک دیا جائے تو تیرتا رہے گا۔ زحل کے 83 چاند ہیں جن میں سے دو ٹائیٹن اور انکلاڈس ارضیاتی فاعلیہ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ٹائیٹن حجم کے لحاظ سے عطارد سے بڑا ہے اور نظام شمسی کا واحد چاند ہے جس پر خاطر خواہ کرہ فضاء موجود ہے۔ یہ نظام شمسی۔کا دوسرا بڑا چاند ہے۔
زحل Saturn Image by 12222786 from Pixabay |
یورینس Uranus
یورینس سورج کا ساتواں قریب ترین سیارہ ہے جو سورج سے 19.2 فلکیاتی اکائیوں کی اوسط دوری پر محو گردش ہے۔ یہ زمین سے 14 گنا زیادہ بھاری اور نظام شمسی کے دیگر دیوہیکل سیاروں میں سے سب سے کم کمیت کا حامل ہے۔ یورینس اپنے محور کے لحاظ سے انتہائی ترچھے مدار کا حامل ہے۔ اس کا محور سورج کے گرد اس کے مدار سے 98 درجے کا زاویہ تشکیل دیتا ہے، اس زاویے کی بدولت یورینس پر دن رات کا قیام دیگر سیاروں کی نسبت بلکل مختلف ہے۔ یورینس پر یورینسی سال میں قطبین پر ایک بار سورج عین سر پر آجاتا ہے اور لمبے عرصے تک افق پر اپنی جگہ تبدیل نہیں کرتا۔ یورینس کا مرکز دیگر سیاروں کی نسبت ٹھنڈا ہے یہ بہت کم حرارت خلا میں منتقل کرتا ہے۔ یورینس کے 27 چاند ہیں جن میں ٹیٹانیہ، اوبیرون،۔امبریل، ایریل اور میرانڈہ قابل ذکر ہیں۔
یورینس Uranus Image by Daniel Roberts from Pixabay |
نیپچون Neptune
نیپچون نظام شمسی کا ابھی تک دریافت شدہ آخری بعید ترین سیارہ ہے۔ نیپچون کا سورج سے اوسط فاصلہ 30.1 فلکیاتی اکائیوں پر محیط ہے۔ یہ زمین سے 17 گنا زیادہ کثیف ہے۔ نیپچون حجم میں یورینس سے چھوٹا تاہم اس سے زیادہ کثیف ہے۔ یہ یورینس سے زیادہ حرارت خلا میں منتقل کرتا ہے لیکِن مشتری اور زحل کی نسبت نیپچون کا اخراجِ حرارت قدرے کم ہے۔ نیپچون کے 14 چاند ہیں جن میں ٹرائیٹن شامل ہے، یہ ارضیاتی طور پر فعال ہے۔ ٹرائیٹن پر مائع ہائیڈروجن کے geysers پائے جاتے ہیں۔ ٹرائیٹن نظام شمسی کا واحد بڑا چاند ہے جو سیارے کے گرد گھڑی وار سمت میں مداروی گردش میں محو ہے، یہ ابتدا سے نیپچون کے گرد محوِ گردش نہیں تھا، یہ ایک سیارچہ ہے جو گردش کے دوران نیپچون کی گرفتِ ثقل میں آگیا۔ نیپچون کے گرد کچھ چھوٹے فلکی اجسام بھی محو گردش ہیں جنہیں نیپچون ٹروجنز کہا جاتا ہے۔ یہ سیارہ ایک برفانی جن ہے۔
نیپچون Neptune Image by Daniel Roberts from Pixabay |
دمدار سیارے Comets☄️
چند کلومیٹر قطر کے حامل اجرام فلکی جو منجمد مادوں سے بنے ہوئے اور دُم کے حامل ہوتے ہیں دُمدار سیارے کہلاتے ہیں۔ یہ منجمد مادے قربتِ سورج میں حدت کی وجہ سے دم کی شکل اختیار کر جاتے ہیں۔ ان کا مدار انہتائی بیضوی ہوتا ہے۔ ان کا حضیض شمسی اندورنی سیاروں کے مدار کے اندر ہوتا ہے جبکہ اوج شمسی پلوٹو سے بھی بعید خطے تک محیط ہوتا ہے۔ اندرونی نظام شمسی کی حدود میں داخل ہونے سے سورج کی قربت کی بدولت حدت کی بدولت دمدار ستارے کی سطح پر تصعید اور آئن سازی کا عمل شروع ہوجاتا ہے، نتیجتاً پیدا ہونے والے بخارات اور ذرات دمدار سیارے سے پیچھے رہ کر گرد اور بخارات پر مشتمل ایک دم تشکیل دیتے ہیں جو عام آنکھ سے مشاہدے میں با آسانی نظر آسکتی ہے بصورت دمدار سیارہ قریب ہو۔ کم مداروی دورانیے کے حامل دمدار سیارے 2 سال یا اس سے کم عرصے میں دکھائی دے جاتے ہیں تاہم جن کا مداروی دورانیہ کثیر ہو وہ ہزاروں سالوں میں ایک بار دکھائی دیتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ کم مداروی دورانیے کے حامل دمدار سیارے مثلاً ہیلی کا دمدار سیارہ، کوئپر پٹی سے آتے ہیں جبکہ لمبے دورانیے کے حامل دمدار سیارے جیسا کہ ہیل باپ اورت بادل سے آتے ہیں۔ دمدار سیاروں کے گروہ ایک سیارے کے ٹوٹنے سے بنتے ہیں۔ کچھ دمدار سیارے نظام شمسی کے باہر سے وارد ہوتے ہیں لیکن ان کے مداروں کا تعین مشکل ہے چنانچہ یہ بات وثوق سے نہیں کہیں جا سکتی۔ بعض قدیم دمدار سیارے کثرت سے قربتِ سورج نصیب ہونے پر اپنے منجمد مادے کھو چکے ہیں لہذا ایسے۔دمدار سیارے سیارچوں میں شمار ہوتے ہیں۔
دمدار سیارہ Comet ☄️ Image by A Owen from Pixabay |
عبر نیپچون خطہ Trans Neptune region
نیپچون سے پرے کا خطہ بیرونی نظام شمسی یا ماوراء النیپچون کہلاتا ہے جو زیادہ تر ناقابلِ دریافت ہے۔ یہ خطہ برف اور چٹانی مادے کے حامل چھوٹے فلکی اجسام پر مشتمل ہے جن میں پلوٹو اور پلوٹو کے چاند، کوئپر پٹی کے اجسام وغیرہ شامل ہیں۔ ماوراء النیپچون میں دریافت شدہ سب سے بڑا جسم قطر میں زمین سے 5 گنا چھوٹا اور چاند سے بھی کم کمیت کا حامل ہے۔ یہ خطہ اندرونی نظام شمسی اور وسطی نظام شمسی کو بنیادی طور پر گھیرے ہوئے ہے۔
کوئپر پٹی Kuiper belt
گردوغبار اور ملبے پر مشتمل ایک بہت بڑا خطہ جو ماوراء النیپچون کی ابتدائی حدود میں واقع ہے کوئپر پٹی کہلاتا ہے۔ سیارچوی پٹی کے برعکس یہ خطہ زیادہ تر برف پر مشتمل ہے۔ کوئپر پٹی اوسطاً سورج سے 30 سے 50 فلکیاتی اکائیوں کے فاصلے پر محیط ہے۔ یہ خطہ دمدار سیاروں مثلاً ہیلی کے دمدار سیارے کا منبع قرار دیا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق کم مدتی دمدار سیارے کوئپر پٹی سے اندرونی نظام شمسی میں داخل ہوتے ہیں۔ اس خطے کے بیشتر اجسام کا شمار چھوٹے اجرام فلکی میں ہوتا ہے تاہم چند حجم میں اس قدر کثیر ہیں کہ مستقبل میں انہیں بونے سیاروں کی فہرست میں جگہ مل سکتی ہے۔ 1 لاکھ سے زائد کوئپر پٹی کے اجسام کا قطر 50 کلومیٹر سے زائد ہے تاہم کوئپر پٹی کی کل کمیت زمین کی کمیت کا دسواں یا سوواں حصہ بنتی ہے۔ اس پٹی کے اکثر اجسام کے ایک سے زیادہ چاند ہیں اور اکثر کے مدار زمین کے مدار سے کافی زاویے پر ہیں۔ کوئپر پٹی کو دو حصوں روایتی پٹی Classical belt اور گمگی پٹی Resonant belt میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ گمگی پٹی کے اجسام نیپچون سے ایک گمگی رشتہ قائم کیے ہوئے ہیں جس میں سورج کے گرد ان کی گردش کا دورانیہ نیپچون کی کششِ ثقل کے زیر اثر ہے۔ نیپچون کے گرد تین گردشی ادوار کے دوران یہ سورج کے گرد ایک گردشی دور مکمل کرتے ہیں۔ گمگی پٹی نیپچون کے مدار کے اندر سے شروع ہوتی ہے۔ روایتی پٹی کے اجسام نیپچون کی کششِ ثقل سے آزاد ہے یہ سورج سے 39.4 سے 47.7 فلکیاتی اکائیوں کے اوسط فاصلے کی دوری پر واقع ہے۔ روایتی پٹی کو Cubewanos بھی کہا جاتا ہے یہ عجیب سا نام دراصل اس پٹی کے سب سے پہلے دریافت ہونے والے جسم QB1 کے نام پر رکھا گیا ہے یہ فلکی جسم ماہرین فلکیات نے 1992ء میں دریافت کیا تھا۔
پلوٹو اور اس کے تین معلوم چاند
پلوٹو کوئپر پٹی کا سب سے بڑا دریافت شدہ جسم اور ایک بونا سیارہ ہے۔ سورج سے پلوٹو کا اوسط فاصلہ 39 فلکیاتی اکائیوں پر محیط ہے۔ 1930ء کو، دریافت کی ابتدائی ساعتوں میں یہ بونا سیارہ قرار دیا گیا تھا تاہم 2006ء میں بین الاقوامی فلکیاتی اتحاد کی جانب سے سیارے کی نئی تعریف ترتیب دیے جانے کے بعد اسے سیاروں کی فہرست سے خارج کر دیا گیا۔ پلوٹو مدار صاف نہیں کر پایا تھا، یہ کوئپر پٹی کے دیگر ہزاروں چھوٹے فلکی اجسام سمیت سورج سے مشترک ثقلی نقطہ توازن کے گرد محو گردش ہے جو اس کے مدار کا حصہ ہیں لہذا اسے سیاروں کی فہرست سے خارج کر دیا گیا۔ پلوٹو کا مدار بیضوی اور ترچھا ہے، زمین کے مدار سے اس کے مدار کا زاویہ 17 درجے ہے اپنے اوس پر یہ سورج سے 49.5 فلکیاتی کی دوری پر چلا جاتا ہے جبکہ اپنے حضیض پر سورج سے اس کا فاصلہ 29.7 فلکیاتی اکائیوں تک محیط رہ جاتا ہے۔ کیرون پلوٹو کا سب سے بڑا چاند ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ ماہرین کیرون کو ایک بونا سیارہ قرار دے دیں کیونکہ کیرون پلوٹو کے گرد گردش نہیں کرتا بلکہ یہ دونوں خلا میں ایک ثقلی نقطہ توازن کے گرد محوِ گردش ہیں۔ یہ جڑواں سیارے معلوم ہوتے ہیں۔ دو چھوٹے چھوٹے چاند نکس اور ہایڈرا ان دونوں کے گرد گرش کرتے ہیں۔ پلوٹو گمگی پٹی میں واقع ہے یہ نیپچون سے مشترک ثقلی نقطہ توازن کے گرد ہر 3 چکر مکمل کرنے کے دوران اپنے 2 چکر مکمل کرتا ہے۔ یہ عمل بھی اسے بونے سیاروں کی فہرست میں رکھے جانے پر مجبور کرتا ہے۔ وہ اجسام جو پلوٹو کے ساتھ گردش کرتے ہیں پلوٹینوز Plutinos کہلاتے ہیں۔
پلوٹو Pluto Image by Eugene from Pixabay |
منتشر طشتری Scattered disk
منتشر طشتری کوئپر پٹی کا جزوی طور پر احاطہ کیے ہوئے ہے لیکن اس کا پھیلاؤ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ منتشر طشتری کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے اجسام کا اصل مسکن کوئپر پٹی ہے۔ نیپچون کی ابتدائی زندگی میں جب اس کا مدار سورج سے دور جارہا تھا تو کوئپر پٹی کے اجسام نے نیپچون کی کششِ ثقل کے زیر اثر بےترتیب مداروں میں جاکر منتشر طشتری کو تشکیل دیا۔ زیادہ تر منتشر پٹی کے اجسام کے حضیض کوئپر پٹی کے اندر واقع ہیں تاہم ان کے اوج سورج سے 150 فلکیاتی اکائیوں کے فاصلے تک محیط ہیں۔ ان اجسام کے مدار زمین کے مدار سے کافی زاویہ بناتے ہیں بعض کے مدار تو زمینی مدار کے عموداً 90 درجے پر واقع ہیں۔ بعض فلکیات دان منتشر طشتری کو کوئپر پٹی کا ہی حصہ سمجھتے ہیں۔
ارس اور اس کا چاند ڈسنومیا
ارس منتشر طشتری کا سب سے بڑا معلوم جسم ہے، سورج سے اس کا اوسط فاصلہ 67.7 فلکیاتی اکائیوں پر محیط ہے۔ ارس پلوٹو سے کم سے کم 25 فیصد بڑا ہے۔ اس کا قطر 2400 کلومیٹر یا 1500 میل پر محیط ہے۔ ارس ماہرین فلکیات کا موضوعِ بحث بنا رہا کیونکہ 2006ء تک پلوٹو کو سیارے کا درجہ حاصل تھا لیکن ارس اس اعزاز سے محروم تھا۔ ارس کا چاند ڈسنومیا ہے۔ پلوٹو کی طرح اس کا مدار بھی کثیر بیضوی ہے۔ اس کا حضیض شمسی 38.2 فلکیاتی اکائیوں کے فاصلے پر ہے اور اس کا اوج شمسی 97.6 فلکیاتی اکائیوں کے فاصلے پر محیط ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں