سورج سے دیگر سیاروں کا فاصلہ
اگر سورج Sun کے گرد زمینی مدار مکمل گولائی میں ہوتا تو زمین اور سورج کے مابین فاصلہ یکساں طور پر 15 کروڑ کلومیٹر قریباً 93000 میل رہتا تاہم فلحال بیضوی مدار میں زمین کا سورج سے اوسطاً فاصلہ 15 کروڑ کلومیٹر ہے جو ایک فلکیاتی اکائی 1AU کہلاتا ہے۔ فلکیاتی اکائی کو اندرون نظام شمسی میں فاصلوں کی پیمائش کے لیے بطور یونٹ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ سورج کا رداس 0.0047 فلکیاتی اکائیوں تقریباً 70 ہزار کلومیٹر یا 40 ہزار میل کے مساوی ہے پس اگر زمینی مدار کرے Sphere کی مانند ہو تو سورج اس کرے کے 0.00001 فیصد حجم Volume پر قابض ہوگا جو کرے کے رداس کے 5 سے 10 فیصد حصے پر مشتمل بنتا ہے۔ مشتری کا سورج سے اوسط فاصلہ 5.2 فلکیاتی اکائیوں تقریباً 78 کروڑ کلومیٹر یا 48 کروڑ میل کے مساوی ہے جبکہ سیاروں میں سورج سے سب سے زیادہ بعید ترین فاصلہ نیپچون کا 30 فلکیاتی اکائیوں پر مشتمل ہے۔ بلفرض اگر نیپچون کا سورج سے اوسط فاصلہ 100 میٹر تقریباً 330 فٹ کردیا جائے تو سورج کا قطر Diameter محض 3 سینٹی میٹر پر محیط ہوگا۔ گیسی دیوہیکل سیارے 3 ملی میٹر mm سے چھوٹے ہوں گے جبکہ ارضی سیارے 0.3 ملی میٹر سے قلیل متصور کیے جائیں گے۔
سورج اور سیاروں کی جسامت
سورج اور سیاروں کی جسامت کا جدول پیش خدمت ہے
نام رداس کیمت کثافت موازنہ
333000 1.41 1.99E+30 695000 سورج
0.055 5.43 3.30E+23 2440 عطارد
0.816 5.24 4.87E+24 6052 زہرہ
1.000 5.52 5.97E+24 6378 زمین
0.108 3.93 6.42E+23 3397 مریخ
318.258 1.33 1.90E+23 71492 مشتری
95.142 0.69 5.68E+26 60258 زحل
14.539 1.32 6.68E+25 25559 یورینس
17.085 1.64 1.02E+26 25766 نیپچون
0.002 2.06 127E+22 1150 پلوٹو
0.012 3.34 7.35E+22 1738 چاند
0.008 2.99 4.80E+22 1565 یورپا
0.018 1.85 1.08E+23 2403 کالسٹو
کلومیٹر کلوگرام زمین سے
اس جدول سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ایک انتہائی کثیر تصوراتی سمندر میں ان تمام فلکی اجرام کو پھینک دیا۔جائے تو صرف زحل تیرتا رہے گا باقی سب ڈوب جائیں گے۔
تشکیل Formation
نظامی شمسی نبیولائی نظریہ کے تحت وجود میں آیا۔ عمانوئیل کینٹ کے 1755ء میں پیش کردہ نظریہ کے مطابق آج سے قریباً 4 ارب 60 کروڑ سال پہلے نظام شمسی کی تشکیل ایک گیسی بادل کے ثقلی انہدام gravitational collapse کی وجہ سے ہوئی۔ یہ بادل کئی نوری سالوں پر محیط تھا جس سے کئی ستاروں نے جنم لیا ہوگا۔ حال ہی میں قدیم شہابیوں میں معمولی مقدار میں ایسے ذرات پائے گئے جو سپرنوا کے پھٹنے سے تشکیل پاتے ہیں۔ ان ذرات کا پایا جانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ سورج کی تشکیل ایسے خوشہ انجم Star cluster میں ہوئی جو کئی دیوہیکل سپرنوا دھماکوں کی زد میں تھا۔ ان سپرنوا دھماکوں نے اپنے اردگرد نیبولا میں موجود گیسی مادے پر دباؤ ڈال کر شدید گیسی کثافت پر مشتمل خطے پیدا کیے۔ گیس کی کثافت بڑھنے سے شدید خم پیدا ہوا اور کشش ثقل زیادہ شدید ہو گئی۔شدید سے شدید تر ہوتی کشش ثقل کو گیسی دباؤ پر قابو پانے کا موقعہ ملا جو بعد میں پورے بادل کے انہدام کا باعث بنا۔ نبیولا کا وہ حصہ جو سورج سمیت نظام شمسی کی تشکیل کا سبب بنا اس کا قطر 7 ہزار سے 20 ہزار فلکیاتی اکائیوں پر محیط تھا۔ اس حصے کی کیمیت موجودہ سورج سے کچھ زیادہ تھی۔اسے قبل الشمس نبیولا Pre-solar nebula بھی کہتے ہیں۔ جیسے جیسے نبیولا سکڑتا گیا محافظۂ زاویائی معیار حرکت Conservation of angular momentum کے باعث اس کی گردشی رفتار میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ جیسے جیسے مرکز میں مادے کی کثافت بڑھتی گئی ایٹموں کی آپسی تکرار ﴿تعدد، Frequency﴾ بھی بڑھتی گئی جس وجہ سے مرکز میں درجہ حرارت میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا۔ شدید کشش ثقل، گیسی دباو، گردش اور مقناطیسی قوتوں کے درمیان سکڑتا ہوا گیسی بادل اب آہستہ آہستہ قبل السیاروی طشتری میں تبدیل ہو چکا تھا۔ اس طشتری کا سائز 200 فلکیاتی اکائیوں پر مشتمل تھا۔ تقریباً 10 کروڑ سال بعد مرکز میں درجہِ حرارت، ہائڈروجن گیس کی کثافت اور کشش ثقل کا دباؤ اتنا زیادہ ہو چکا تھا کہ اس میں مرکزی ائتلاف Fusion reaction کی ابتداء ہوئی۔ مرکزی ائتلاف کی رفتار اس وقت تک بڑھتی رہی جب تک آبسکونی توازن Hydrostatic equilibrium قائم نہیں ہو گیا۔ اس وقت مرکزی ائتلاف سےجنم لینے والی توانائی کا دباؤ کشش ثقل کے دباؤ کے مساوی ہو گیا تھا لہذا مذید سکڑاؤ رک گیا۔ اب سورج ایک مکمل ستارہ بن چکا تھا۔ اربوں کہکشاؤں کے سمندر کی ایک انوکھی کہکشاں میں ایک نوزائیدہ ستارے کا جنم ہوا تھا۔یہی ستارہ بعد میں ہمارا
سورج کہلایا۔اسی دوران قبل السیاروی طشتری Protoplanetary disk میں دھول، دھاتیں، سیکیلیٹ اور چٹانی ذرات بھی کشش ثقل کے زیر سایہ ایک دوسرے کے قریب تر آ رہے تھے۔ اول مرحلے کے ثقلی انہدام میں 2 سینٹی میٹر کے ذرات باہم ضم ہوکر بڑی چٹانیں تشکیل دے رہے تھے۔ ان ذرات کے ضم ہونے سے تشکیل پانے والی چٹانیں دو سو میٹر مکعب کے حجم کی حامل تھیں۔ دوئم مرحلے میں ان چٹانوں کے حجم میں اضافے سے زمان ومکان میں ان کا خلل بڑھ گیا تھا جو ان چٹانوں میں پیدا ہونے والے اسراع Gravity کو بڑھا رہا تھا نتیجتاً قبل السیاروی طشتری میں مستحکم ہوتی کشش ثقل نے ان کثیف چٹانوں کو باہم قریب لانا شروع کیا، ثقلی انہدام سے نئی تشکیل پانے والی چٹانیں اب 10 کلومیٹر بڑی تھیں۔ اس وقت اندرونی نظام شمسی میں لوہا، نکل اور ایلومینیئم جیسے بھاری عناصر اس ابتدائی مادے کی اشکال کو تشکیل دے رہے تھے۔ سوئم مرحلے میں سورج کی تشکیل کے ایک لاکھ سال بعد باہمی کشش ثقل مذید مستحکم ہوئی اور چٹانیں مزید ضم ہو کر قبل السیاروی اجرام فلکی کی صورت میں ڈھل گئیں، یہ سیاروں کی ابتدائی حالت تھی۔ ابتدا میں قبل السیاروی طشتری میں ان اجرام فلکی کی بہتات تھی تاہم وقت کے ساتھ ساتھ یہ ایک دوسرے میں ضم ہو گئے۔ آخری مرحلے میں یہ سیاروں کی صورت میں تشکیل پا چکے تھے۔ بھاری عناصر سے اندرونی ارضی سیارے تشکیل پائے، چونکہ بھاری عناصر کی تعداد قبل السیاروی طشتری میں قلیل تھی لہذا ارضی سیارے حجم میں زیادہ بڑھ نہ سکے تاہم اس سے دور ضم ہوتے غیر مستحکم مادے مقدار میں کثیر تھے جن سے دیو ہیکل گیسی اور برفیلے سیارے وجود میں آئے۔ اگلے 3 سے 10 ملین سالوں میں نوزائیدہ سورج کی شمسی ہواؤں نے گیسوں اور دھول کے ذرّات کو خلا کی وسعتوں میں دور دھکیل دیا اس طرح سے ان سیاروں کی تکمیل کا مرحلہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ بچا ہوا ملبہ جو کبھی سیارے کی صورت اختیار نہ کر سکا سیارچہ پٹی، کوئپر بیلٹ اور اورت بادل Oort cloud جیسے خطوں میں جمع ہوا۔ nice ماڈل ان خطوں کی تشکیل کی وضاحت کرتے ہیں کہ کیسے بیرونی سیارے مختلف مقامات پر تشکیل پائے اور پھر اپنے موجودہ مدار میں منتقل ہوئے اسی کے ساتھ اس کہانی کا ایک باب ختم ہوا جس میں ابھی زندگی کو پنپنا تھا۔
اسد صابر
جاری ہے ﴿2﴾
Good 👍...
جواب دیںحذف کریں