کھائیاں اور گڑھے
عطارد کی سطح پر پائے جانے والے گڑھے اور
کھائیوں کا تین جہتی 3D منظر
عطارد کی سطح پر گڑھے پائے جاتے ہیں جن کا حجم ایک پیالہ نما گڑھے سے لے کر کئی سو کلومیٹر پر محیط ہوسکتا ہے۔ یہ گڑھے مختلف حالتوں میں پائے جاتے ہیں ان میں سے کچھ گڑھے تازہ حالت میں موجود ہیں جبکہ کچھ قدیم ہونے کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر تقریباً معدوم ہو چکے ہیں۔ کششِ ثقل کی بدولت عطارد کے گڑھوں سے چاند کے گڑھوں کی نسبت تازہ مواد کم نکلتا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ آج سے قریباً 4.6 ارب سال قبل عطارد کی سطح پر دمدار سیاروں اور شہابیوں کی بوجھاڑ ہوتی رہی۔ غالباً یہ عمل تقریباً 3.8 سال قبل دوبارہ وقوع پذیر ہوا۔ اس دوران عطارد کی سطح پر انتہائی وسیع و عریض اور گہرے گڑھے تشکیل پائے۔ عطارد ارضیاتی طور پر فعال تھا نتیجتاً آتش فشانی کی صورت میں ان گڑھوں نے لاوے سے متاثر ہوکر ماریہ Maria جیسے وسیع و عریض ہموار میدانوں کو جنم دیا۔ بعد ازاں ایک غیر معمولی گڑھے کی دریافت ہوئی جسے ماہرین نے مکڑی Spider کا نام دیا تھا تاہم بعد میں اسے اپولوڈورس کے نام سے پکارا جانے لگا۔
بین الاقوامی فلکیاتی اتحاد کے وضع کردہ اصول کے مطابق گڑھے کا نام ایسے فنکار سے منسوب کیا جاسکتا ہے جس کی شخصیت تقریباً 50 سال شہرت کی بلندیوں کو چھوتی رہی ہو اور گڑھے کی دریافت سے 3 سال قبل تک اس کی موت واقع ہوچکی ہو۔ انہیں گڑھوں میں سے ایک گڑھا کلوریس بیسن ہے جو عطارد کا سب سے بڑا گڑھا شمار ہوتا ہے۔ اس کا قطر 1550 کلومیٹر پر محیط ہے۔ اس گڑھے کی تشکیل کا عمل اس قدر شدید تھا کہ نہ صرف لاوا نکلا بلکہ بیرونی کنارہ 2 کلومیٹر اونچا ہو گیا تھا۔ کلوریس بیسن کا فرش سخت اور کٹی پھٹی سطح کا حامل ہے جو کثیر الاضلاع کا نمونہ pattern تشکیل دیتی ہے. یہ مصدقہ طور پر معلوم نہیں کہ آیا یہ سطح آتش فشانی کے دوران لاوے کے بہاؤ سے وجود میں آئی یا شدید ٹکراؤ کے دوران سطح کے پگھلنے سے تشکیل پائی۔ اس کے مقابل خطوں antipode پر غیر معمولی پہاڑی سلسلوں کا حامل ایک وسیع خطہ موجود ہے جسے عجیب خطہ Weird Terrain کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ بھی شدید ٹکراؤ کے نتیجہ میں وجو میں آیا ہوگا۔ مجموعی طور پر 46 ایسے گڑھوں کی نشاندھی کی گئی ہے جن میں سے ایک گڑھا 4 سو کلومیٹر چوڑا ہے۔ اس سے نکلنے والا لاوا تقریباً 500 کلومیٹر دور تک پھیلا۔ عطارد کی سطح پر بادِشمسی اور چھوٹے شہابیوں کے اثرات بھی مرتب ہوئے۔ عطارد پر قابل ذکر فضاء نہ ہونے کی وجہ سے بادشمسی کے اثرات آج تک جاری ہیں۔
عطارد پر مختلف قسم کے میدانی علاقے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں میدانوں میں دباؤ سے بننے والی لہریں نما سطحیں موجود ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ جوں جوں عطارد کا مرکزہ سرد ہونے لگا تو قشر کی سطح بگڑنے لگی جس سے یہ لہریں نما سطحیں وجود میں آئیں۔ یہ لہریں نما سطحیں گڑھوں اور سطحیں میدانوں پر بھی موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سطحیں بہت بعد میں وجود میں آئیں۔ گڑھوں سے طویل دوری تک پھیلاؤ کی حامل گڑھوں کی روشن کرنیں Craters rays عطارد پر پائی جاتی ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ جب شہابیے عطارد کی سطح سے ٹکراتے تھے تو اس شدید ٹکراؤ کے نتیجے میں سطح میں گہرے گڑھے بن جاتے تھے جبکہ اس سطح کے مواد کا کچھ حصہ شدید تصادمی توانائی Collision energy کی بدولت پگھل کر خلا کی وسعتوں میں کھو جاتا اور کچھ کم بلندی کو چھونے والا مواد واپس گڑھے کے اردگرد گر کر ان کرنوں کو جنم دیتا۔ چونکہ یہ کرنیں عطارد کی سطح کی نسبت زیادہ روشنی کو منعکس کرتی ہیں چنانچہ دیگر سطح کی نسبت زیادہ روشن نظر آتی ہیں تاہم کروڑوں سالوں کے دورانیے میں بادِشمسی اور ان گڑھوں سے نکلنے والی گِرد کرنوں کی انعکاسیت Reflexivity کو مدہم کرتی جاتی ہے۔
عطارد کی سطح پر پائے جانے والے گڑھے NASA/JHUAPL, CC BY-SA 2.0, via wikimedia commons |
سطی درجہِ حرارت اور کرہ فضاء
Surface temperature and Atmosphere
عطارد کا سطحی درجہ حرارت منفی°173 سینٹی گریڈ سے °427 سینٹی گریڈ تقریباً 100 کیلون سے 7 سو کیلون کے مابین رہتا ہے۔ عطارد پر قابل ذکر فضاء نہ ہونے کی وجہ سے عطارد کے قطبین اور خط استوا پر درجہ حرارت میں واضح فرق پایا جاتا ہے۔ روشن سطح پر درجہ حرارت 550 کیلون سے 700 کیلون تک اور تاریک سطح پر 110 ڈگری کیلون تک ریکارڈ کیا گیا ہے۔ عطارد کی سطح پر سورج کی حدت شمسی مستقل Solar constant سے 4.59 سے 10.61 گنا زیادہ ہے۔ اگرچہ عطارد کی سطح پر دن کے دورانیے میں درجہ حرارت زیادہ ہوتا ہے تاہم اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ عطارد پر برف پائی جاتی ہے۔ عطارد کی سطح پر موجود گہرے گڑھوں اور کھائیوں کی تہوں تک شمسی حدت و روشنی براہ راست نہیں پہنچتی نتیجتاً وہاں کا درجہِ حرارت 102 کیلون سے نیچے رہتا ہے۔ یہ سطح ایک سرد خطہ تشکیل دیتی ہے جہاں پانی برف کی صورت میں جمع ہو سکتا ہے۔ آبی برف ریڈار پر چمکتی ہے لہذا 70 میٹر والی گولڈ سٹون دوربین اور وی ایل اے کی مدد سے عطارد کے قطبین پر موجود چمکدار سطحوں کا مشاہدہ کیا گیا تھا۔ امکان ظاہر کیا جاتا ہے کہ داراصل یہ سطحیں برفانی خطے ہیں اگرچہ ان سطحوں کا واحد سبب برف نہیں ہو سکتا۔ ان برفانی سطوں پر برف کی مقدار کا اندازہ لگ بھگ 10¹⁴ تا 10¹⁵ کلوگرام تک لگایا گیا ہے۔ اس کے مماثل زمین پر قطب جنوبی کی برفانی تہہ کا وزن 10¹⁸×4 کلوگرام ہے جبکہ مریخ کے جنوبی قطب پر 10¹⁶ کلوگرام پانی کی مقدار بتائی گئی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ برفانی تہیں شہابیوں کے ٹکرانے یا عطار کی سطح سے پانی کے اخراج کی وجہ سے وجود میں آئیں۔
مختصر حجم اور گرم ماحول کی بدولت عطارد کی کشش ثقل اس قدر کثیر نہیں کہ وہ قابل ذکر فضاء کا وجود لمبے دورانیے کےلیے قائم رکھ سکے۔ عطارد پر مہین سی فضاء موجود ہے جو ہائیڈروجن، ہیلیم، آکسیجن، سوڈیم، پوٹاشیم، کیلشیم اور دیگر عناصر پر مشتمل ہے تاہم یہ مہین فضاء مستحکم نہیں۔ قدیم ایٹم خلا کی وسعتوں میں گم ہوتے رہتے ہیں اور ان کی جگہ لینے کے لیے نئے ایٹم مختلف ماخذوں سے فضاء کا حصہ بنتے رہتے ہیں۔ بادشمسی جب عطارد کی فضاء سے ٹکراتی ہے تو اپنے ساتھ ہائیڈروجن اور ہیلیم کے ایٹم لاتی ہے۔ ہائیڈروجن اور ہیلیم ایٹم عطارد کی فضاء کا حصہ بنتے ہیں، پھر کچھ عرصے بعد بخارات کا روپ دھار کر اڑن چھو ہو جاتے ہیں۔ ہیلیم، پوٹاشیم اور سوڈیم کے ایٹم عطارد کی بیرونی سطح میں ہونے والی تابکاری کا ثمر ہے۔ میسینجر نامی خلائی جہاز کو عطارد کی سطح پر کثیر مقدار میں کیلشیم، ہیلیم، ہائیڈرو آکسائڈ، میگنیشیم، آکسیجن، پوٹاشیم، سیلیکان اور سوڈیم کے شواہد ملے تھے۔ آبی بخارات کی صورت میں پانی کے اہم ذرائع میں شہابیوں کا ٹکراؤ، بادشمسی سے ہائیڈروجن کا فضائی حصے دار آکسیجن سے ملاپ اور قطبین پر جمی ہوئی برفانی تہیں شامل ہیں۔ سوڈیم، پوٹاشیم، اور کیلشیم 1980ء یا 1990ء کے مابین دریافت ہو گئے تھےجو چھوٹے شہابیوں کے ٹکراؤ سے پیدا ہوئے ہوں گے۔ شہابیوں کے ٹکراؤ سے پیدا ہونے والی میگنیشیم 2008ء میں دریافت ہوئی۔ اور سوڈیم کا ماخذ مقناطیسی قطبین ہیں۔
29 نومبر 2012ء میں میسینجر نامی خلائی جہاز نے عطارد کے قطب شمالی پر ایسا گڑھا دریافت کیا جس میں برف کی تہیں جمی ہوئی تھیں۔ نیو یارک ٹائمز کے مطابق یہ برف اس قدر کثیر مقدار میں ہے کہ واشنگٹن DC کو دو میل Miles کی چوڑائی اور آدھا میل کی گہرائی تک جما سکتی ہے۔
اسد صابر
جاری ہے ﴿8﴾
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں