سیارہ Planet
بین الاقوامی فلکیاتی اتحاد کی رو سے
ایسا فلکی جسم جو کسی ستارے سے مشترک ثقلی نقطہ توازن Barycenter of gravity کے گرد مخصوص مدار میں محوِ گردش ہو، متعلقہ ستارے کے حامل انفرادی ثقلی نقطہ توازن کے گرد محو گردش کسی جسم سے ملحق ثقلی توازن کے گرد گردش نہ کرتا ہو، کشش ثقل کی بدولت کرہ نما Sphere صورت اختیار کر چکا ہو اور ذاتی کشش ثقل میں اس قدر دم خم ہو کہ اپنے مدار کی حفاظت کر سکے گویا اردگرد سے کوئی جسم اس کے مدار کو متاثر نہ کرے سیارہ Planet کہلاتا ہے
یہ سیارے کی جامع تعریف ہے۔
عطارد Mercury
عطارد Mercury Image by Daniel Roberts from Pixabay |
عطارد اندرونی ارضی سیاروں میں سے سب سے چھوٹا اور سورج کے قریب ترین سیارہ ہے۔ عطارد مداروی گردش 87.969 زمینی دنوں میں مکمل کرتا ہے۔ یہ ہر 2 بار مداروی گردش کے دورانیے میں 3 بار محوری گردش مکمل کر لیتا ہے۔ چونکہ عطارد افق پر سورج کے قریب تر رہتا ہے لہٰذا عطارد کا مشاہدہ عموماً سورج گرہن کے دوران کیا جاتا ہے۔ نصف شمالی کرے پر عطارد کے مشاہدے کے لیے موضوع ترین وقت طلوعِ آفتاب سے قبل یا غروبِ آفتاب کے بعد متصور ہوتا ہے۔ زمین سے مشاہدے کے دوران افق Sky پر عطارد اور سورج کے درمیان زاویہ کبھی بھی 28 درجے سے زائد نہیں رہا۔ عطارد زمین سے ہلال و قمر کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ عطارد کے تفصیلی مطالعے کے لیے ابتداءً دو خلائی جہازوں کی خدمات لی گئی تھیں۔ اولاً میرینر دہم کے ذریعے 1974ء سے 1975ء کے دوران عطارد کی 45 فیصد نقشہ کشی کی گئی بعد ازاں 18 مارچ 2011 کو میسیجز عطارد کے مدار میں داخل ہوکر بقیہ حصے کی نقشہ کشی میں مصروف ہو گیا تھا۔ ابھی حال ہی میں شمسی پروب کا عطار کے قریب سے گزر ہوا جو سورج کی طرف بھیجا گیا ہے۔ عطارد کے مشاہدے سے متعلق قدیم دستاویز قبل مسیح سے ملی ہیں۔ 14 صدی قبل مسیح میں یونانی اسے دو مختلف اجرام فلکی خیال کرتے تھے۔ یونانیوں کے نزدیک ایک قبل از طلوع آفتاب اور دوسرا بعد از غروب آفتاب دکھائی دیتا تھا۔ عطارد کا انگریزی نام مرکری Mercury رومی تہذیب میں یونانی دیوتا ہرمیس کے مماثل رومی دیوتا مرکیوریس Mercurius سے مستعار لیا گیا ہے۔ عطارد کا عام آنکھ سے مشاہدہ ممکن ہے۔
قدیمی پس منظر اور مشاہدہ
تاریخی اعتبار سے ہمیں عطارد کے قدیمی شواہد عہدِ بابل میں ملتے ہیں۔ عطارد کے مشاہدے کا ذکر قدیم بابل سے ملنے والی تختیوں میں پایا گیا ہے۔ 14 صدی قبل مسیح کے یہ مشاہدات ایک فلکیات دان عاشوری سے ماخوذ ہیں۔ بابلی تہذیب کے رہائشی اسے نابو کے نام سے پکارتے تھے۔ قدیم یونانی بھی عطارد سے واقف تھے۔ وہ اسے 2 مختلف اجرام فلکی خیال کرتے تھے۔ اول اپالو جو قبل از طلوع آفتاب دکھائی دیتا ہے اور دوم ہریمس جو بعد از غروب آفتاب افق پر جلوے بکھیرتا ہے۔ رومیوں نے پہلی بار عطارد کا نام اپنے ایک قاصد دیوتا مرکیوریس کے نام پر مرکری Mercury استعمال کیا۔ یہ نام یونانی دیوتا ہریمس کے ہم پلہ تصور کیا جاتا تھا کیونکہ افق پر عطارد کسی بھی دوسرے سیارے کی نسبت زیادہ تیزی سے اپنی جگہ تبدیل کرتا دکھائی دیتا تھا۔ عطارد کے شمسی اختفاء کا ذکر اولاً مصری سائنسدان بطلیموس نے اپنی تحریروں میں کیا۔ تاریخی اعتبار سے چھوٹا ہونے کے سبب یا سورج کے سامنے سے کبھی کبھار گزر کی وجہ سے عطارد کے شمسی اختفاء کا ذکر بطلیموس سے پہلے نہیں پایا جاتا۔ عطارد اور زہرہ کے شمسی اختفاء سے مراد ان کا سورج کے سامنے گزرنا ہے۔
قدیم چینی عطارد کو چنگ ژن Chen-xing 辰星 یعنی گھنٹہ ستارہ کہتے تھے۔ قدیم چینی اسے شمال کی سمت سے بھی منسوب کرتے تھے تاہم جدید چینی، کورین، جاپانی اور ویتنامی ثقافتوں میں اسے آبی ستارہ 水星 water star کہا جاتا ہے۔ ہندو دیومالا میں اسے بدھا کے نام سے پکارا گیا جو بدھ کے روز کا حکمران مانا جاتا ہے۔ جرمن مظاہر پرست اسے بدھ اور اوڈن دیوتا سے منسوب کرتے تھے جبکہ مایا لوگ اسے اُلو سے تشبیہ دیتے تھے۔ کبھی کبھار عطارد کے اظہار کے لیے 4 اُلو استعمال کیے جاتے تھے ان میں سے دو اُلّو صبح کے اظہار کےلیے مخصوص تھے اور دو شام کے اظہار کےلیے، وہ اسے زیرِ زمین پیغام رساں بھی کہتے تھے۔ مشہور ہندوستانی ماہر فلکیات سریا سدھانتا نے عطارد کا قطر 3008 میل ماپا۔ عطارد کی موجودہ قطری پیمائش 3032 میل اور 5 صدی عیسوی میں ماپی گئی پیمائش ”3008 میل“ کے مابین 1 فیصد سے بھی کم فرق پایا گیا ہے۔ قرون وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے اندلسی فلکیات دان ابو اسحاق الزرقاوی نے عطارد کے مدار کو بیضوی بیان کیا۔ 12 صدی عیسوی میں ابن باچا نے سورج کے مشاہدے کے دوران سورج پر نمودار ہونے والے دو دھبوں کو سیارے قرار دیا جبکہ 13 صدی عیسوی میں مسلم فلکیات دان قطب الدین الشیرازی نے اظہارِ خیال کیا کہ شاید یہ عطارد اور زہرہ تھے جو سورج کے سامنے دھبوں کی صورت میں نظر آئے تھے۔ بعد ازاں برصغیر میں کیرالا سکول کے ماہر فلکیات کنٹھا سومیا جی نے نظام شمسی کا ایک ماڈل پیش کیا جس میں عطارد کو سورج کے گرد اور سورج کو زمین کے گردش کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ جدید ماڈل کے تحت سورج زمین کی بجائے زمین و سورج سے مشترک ثقلی نقطہ توازن کے گرد محوِ گردش ہیں۔
عطارد کا ارضی دوربین سے مشاہدہ
عطارد کا ارضی دوربین سے مشاہدہ 17 صدی عیسوی میں کیا گیا۔ یہ مشاہدہ مشہور ماہر فلکیات گلیلیو نے کیا تھا۔ گلیلیو نے زہرہ سیارے کے مراحل کو دیکھا تاہم یہ دوربین اتنی طاقتور نہیں تھی کہ عطارد کی منزلوں کا مشاہدہ کر سکے۔ 1639ء میں جیوانی زوپی نے دور بین کی مدد سے عطارد کے گھٹنے اور بڑھنے کا مشاہد کیا۔ یہ بالکل زہرہ اور چاند کی منزلیں طے کرنے کے مماثل تھا۔ اس مشاہدے سے پایہ ثبوت کو پہنچا کہ عطارد اور سورج بھی مشترک ثقلی نقطہ توازن کے گرد محو گردش ہیں۔
عطارد اور زہرہ کا شمسی اختفاء
ایسا وقوعہ جس میں ایک جرم فلکی دوسرے جرم فلکی کے پیچھے چھپ جائے اختفاء کہلاتا ہے اور اگر کوئی جرم فلکی مکمل سورج یا اس کے قلیل حصے کو چھپالے تو ایسا وقوعہ شمسی اختفاء کہلاتا ہے۔ 28 مئی1737ء میں جان بیوس نے عطارد اور زہرہ کے شمسی اختفاء کا واحد مشاہدہ گرین وچ کی شاہی رصدگاہ پر کیا۔ اگلی بار یہ وقوعہ 3 دسمبر 2133ء کو رونما ہوگا۔ عطارد کا مشاہدہ دیگر سیاروں کی نسبت کم کیا گیا ہے۔ 1962ء میں روسی سائنسدانوں نے یو ایس ایس آر اکیڈمی آف سائنس کی ذیلی شاخ برائے ریڈیو انجینئرنگ کے ذریعے عطارد پر ریڈار کے سگنل بھیج کر موصول کیے اس طرح ریڈار کے ذریعے عطارد کے مشاہدے کا آغاز ہوا۔ یہ فعل ولادی میر کوٹیلنکیوو کی سربراہی میں سر انجام دیا گیا۔ امریکی گورڈن پیٹنگل اور آرڈائس نے پورٹو ریکو میں 300 میٹر ریڈیائی دور بین سے عطارد سیارے کا ریڈیائی مشاہدہ شروع کیا۔ مشاہدے سے تصدیق ہوئی کہ عطارد 59 دنوں میں اپنی ایک گردش مکمل کرتا ہے۔ ریڈار سے معلوم ہوا کہ سیارے کے تاریک حصے کا درجہِ حرارت توقع سے کہیں زیادہ ہے۔
گو مشہور تھا کہ عطارد کا ہمیشہ واحد رخ سورج کی سمت میں رہتا ہے تاہم اطالوی سائنسدان جیوسپو کولمبو کی رو سے عطارد کی محوری و مداوری گردش کا تناسب 2 اور 3 کا ہے، بعد از میرینر دہم نے اس کی تصدیق کی۔ عطارد کے بارے میں ارضی بصری مشاہدے سے زیادہ معلومات حاصل نہیں ہوئیں تاہم خورد موجی طول موج کی بدولت سیارے کی سطح سے کئی میٹر نیچے کی کیمیائی اور طبعی خصوصیات کا مطالعہ کیا گیا۔ یہ طول موج سورج کی ریڈی ایشنز سے متاثر نہیں ہوتیں۔ امیجنگ تکنیک کی مدد سے سن 2000ء میں سیارے کی ایسی خصوصیات کا پتا چلایا گیا جو میرینر مشن سے بھی معلوم نہ ہو پائی تھیں۔ دھاتوں اور سلیکیٹ سے بنی عطارد کی ساخت منفرد خصوصیات کو عیاں کرتی ہے۔
عطارد کا شمسی اختفاء Transit of Mercury Image by 0fjd125gk87 from Pixabay |
اسد صابر
جاری ہے ﴿6﴾
👍 👍 👍 👍
جواب دیںحذف کریںthank you
حذف کریں