سورج Sun
آفتاب Sun Image by ipicgr from Pixabay |
سورج ہمارے نظام شمسی کا واحد اور بنیادی ستارہ ہے جو زمین سے 332950 گنا زیادہ کمیت کا حامل ہے۔ انتہائی کثیر کمیت زمان ومکان Space and time میں خم Curve پیدا کرتے ہوئے اسے اس قدر دباؤ فراہم کرتی ہے کہ اندورنی کثافت کے بل بوتے پر سورج میں مرکزی ائتلاف Nuclear fusion کا عمل شروع ہو سکے۔ مرکزی ائتلاف کے نتیجہ میں انتہائی کثیر مقدار میں توانائی کی پیدائش ہوتی ہے جو برقناطیسی لہروں کی صورت میں بڑی حد تک خلا کی وسعتوں میں دور تک بکھر جاتی ہے۔ عموماً سورج کو درمیانے درجے کے ستارے سے تشبیح دی جاتی ہے تاہم دیگر سیاروں کی نسبت قریب ہونے سے یہ زیادہ روشن اور واضح نظر آتا ہے۔ سورج کے علاوہ دیگر سیارے کم کمیت Mass کے حامل ہونے کی وجہ سے ستارہ بننے کی اہلیت نہیں رکھتے لہذا سورج نظام شمسی کا واحد ستارہ ہے۔ آج سے قریباً 70 ہزار سال قبل نظام شمسی کے قریب ستاروں کا ایک اور بائنری سسٹم آگیا تھا جسے شولز ستاروں کے نام سے جانا جاتا ہے۔ شولز ستاروں کا بائنری سسٹم سورج سے 0.82 نوری سال کی دوری پر اورت بادل کے قریب سے خطہ ہائے بعید کو چھوتا ہوا گزرا تھا۔ اس وقت زمین سے ایک اور ننھا سا سورج بھی دکھائی دیتا تھا۔ شولز ستاروں کا نام ان کے دریافت کنندہ رالف ڈائٹر شولز کے نام پر رکھا گیا جنھوں نے یہ سسٹم 2013ء میں دریافت کیا تھا۔ ستاروں کی درجہ بندی ہرٹز پرنگ-رسل کے نقشے Diagram کے مطابق کی جاتی ہے۔ اس گراف میں ستاروں کی چمک کو ان کے سطحی درجہ حرارت کے مقابل درج کیا جاتا ہے۔ اس درجہ بندی میں عمومی خصوصیات کے حامل ستاروں کو رائیسی متوالیہ Main sequence ستارے کہا جاتا ہے جن میں سورج بھی شامل ہے تاہم سورج سے زیادہ گرم اور چمکدار ستارے کم یاب ہیں جبکہ کم گرم اور روشن ستاروں کی بہتات ہے۔ اس وقت سورج اپنی زندگی کے عروج پر ہے۔
سورج میں ایندھن کی مقدار کا ابھی بہت بڑا حصہ باقی ہے۔ موجودہ حالت میں یہ پیدائشی دور سے 75 فیصد زیادہ روشن ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ سورج کی جسامت اور چمک میں اضافہ ہوتا جائے گا تاہم ہائیڈروجن اور ہیلیم کے تناسب سے معلوم ہوتا ہے کہ آفتاب فلحال اپنی عمر کے درمیانے حصے میں ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی رنگت سرخی مائل ہوتی جائے گی اسی طرح تقریباً 5 ارب سال بعد یہ سرخ جن Red giant بن جائے گا۔ اس وقت سورج کی چمک اس کی موجودہ چمک سے کئی ہزار گنا زیادہ ہوگی۔ سورج اول آبادی Population I کے ستاروں میں سے ہے، یہ کائناتی ارتقاء کے بہت بعد کے مراحل میں وجود میں آیا۔ اس کی ساخت میں دوم آبادی Population II کی نسبت بھاری عناصر Elements کی مقدار زیادہ ہے۔ ان بھاری عناصر کو علم فلکیات کی زبان میں دھاتیں کہتے ہیں گوکہ علم کیمیاء میں دھات کی تعریف اس سے قدرے مختلف ہے۔ ہائیڈروجن اور ہیلیم سے بھاری عناصر قدیم ستاروں کے پھٹنے سے وجود میں آئے تھے۔ قدیم ستاروں میں ان عناصر کی مقدار بہت قلیل تھی تاہم نئے ستاروں میں ان عناصر کی کثیر مقدار موجود ہے۔ ماہرین کے مطابق سورج میں اونچی دھاتیت اس کے گرد سیاروں کی تشکیل کےلیے نہایت اہم تھی کیونکہ ستارے دھاتوں کے ارتکاز Accretion سے وجود میں آئے۔
اندرونی نظام شمسی Inner Solar System
اندرونی نظام شمسی Inner Solar System Pablo Carlos Budassi, CC BY-SA 4.0, via wikimedia commons |
اندرونی نظامِ شمسی سے مراد وہ خطہ ہے جس میں سورج، 4 ارضی سیارے اور ان کے سیارچے و دیگر فلکی اجسام شامل ہیں۔ یہ سیارے و سیارچے دھاتوں اور سلیکیٹ سے مل کر بنے ہیں اور سورج سے نسبتاً قریب ہیں۔ اس پورے خطے کا رداس مشتری اور زحل کے مابین فاصلے سے بھی کم ہے۔ یہ خطہ فراسٹ لائن کے اندر ہے جو 5 فلکیاتی اکائیوں سے تھوڑا قلیل ہے۔ نظام شمسی کے 4 ارضی سیارے اپنی ساخت کے اعتبار سے نظام شمسی کے دیگر فلکی اجرام سے تھوڑا سا مختلف ہیں۔ یہ چٹانوں، اونچے نقطۂ پگھلاؤ Melting point کی حامل معدنیات اور سلیکیٹ سے تشکیل پائے ہیں۔ ان سیاروں کی بیرونی ٹھوس تہہ Crust کے نیچے گرم اور نیم نرم مائع کرہ حجری پایا جاتا ہے جس کا غالب جز سلیکیٹ معدنیات ہیں۔ ان کا اندرونی مرکزہ لوہے اور نکل پر مشتمل ہے جبکہ 4 سیاروں میں سے 3 سیارے کرہ ہوائی کے حامل ہیں۔ ان کی سطح پر شہاب ثاقب کے ٹکراؤ سے بنے تصادمی گڑھے عام پائے جاتے ہیں۔ چونکہ ان کی ٹھوس سطح کے نیچے مائع کرہ حجری زیر حرکت ہے لہذا ان کا سطحی قرش بھی حرکت میں رہتا ہے۔ قرش کی اسی حرکت کے باعث آتش فشاں پہاڑ اور کھائیاں جنم لیتی ہیں۔ عطارد، زہرہ، زمین اور مریخ کا مختصر تعارف درج ذیل میں بیان کیا گیا ہے۔
عطارد Mercury
عطارد نظام شمسی کا سب سے چھوٹا اور سورج سے قریب ترین سیارہ ہے۔ عطارد کا سورج سے اوسط فاصلہ 0.4 فلکیاتی اکائیوں یا 6 کروڑ کلومیٹر ہے، یہ 3 کروڑ 70 لاکھ میل بنتا ہے۔ عطارد کا کوئی چاند نہیں اور اس کا معمولی کرہ ہوائی ان ایٹموں پر مشتمل ہے جو بادشمسی اس کی سطح پر سے اڑاتی ہے۔ عطارد کے بڑے فولادی مرکزے اور مہین سے مینٹل کی ابھی تک واضح اور مناسب وضاحت موجود نہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ باد شمسی نے عطارد کی بیرونی تہہ کو خلا میں اڑا دیا ہو گا۔ ایسے شہابیے کی تلاش کی کوشش کی گئی تھی جس کا مدار سورج اور عطارد کے درمیان مستحکم ہو تاہم اس کوشش میں خاطر خواہ کامیابی ہاتھ نہ آئی۔
عطارد Mercury Image by Daniel Roberts from Pixabay |
زہرہ Venus
زہرہ سورج سے دوسرا قریب ترین سیارہ ہے۔ زہرہ کا سورج سے فاصلہ 0.7 فلکیاتی اکائیوں ہر محیط ہے۔ زہرہ حجم میں زمین کے قریباً مساوی ہے اور 0.815 کیمیت ارضی کا حامل ہے۔ زمین کی طرح زہرہ بھی فولادی مرکز کا حامل ہے جس کے گرد سلیکیٹ کے مینٹل کا موٹا غلاف چڑھا ہوا ہے۔ زہرہ اچھے خاصے کرہ ہوائی کا حامل ہے جس کا موسم خشک اور فضاء بنسبت زمین 90 گنا زیادہ کثیف ہے۔ زہرہ کی سطح پر ارضیاتی فاعلیہ Geological activity کے نمایاں آثار موجود ہیں جن میں آتش فشاں پہاڑ اور کھائیاں شامل ہیں۔ زہرہ چاند سے محروم ہے اور تمام نظام شمسی میں یہ سب سے گرم سیارہ ہے۔ زہرہ کا درجہ حرارت 400 درجہ صد Centigrade سے زیادہ ہو جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق زہرہ کے گرم ہونے کی وجہ اس کی فضاء میں موجود حبس المکاں Green house گیسوں کی موجودگی ہے۔
زہرہ Venus Image by Daniel Roberts from Pixabay |
زمین Earth
زمین سے کون واقف نہیں، یہ ہمارے نظام شمسی کا واحد سیارہ ہے جس پر ابھی تک زندگی کے آثار دریافت ہوئے۔ زمین سورج کے لحاظ سے سوئم قریب ترین سیارہ ہے۔ اس کا سورج سے اوسط فاصلہ 1 فلکیاتی اکائی یا 15 کروڑ کلومیٹر ہے۔ یہ اندرونی سیاروں میں سب سے بڑا اور کثیف سیارہ ہے۔ یہ اندرونی سیاروں میں واحد سیارہ ہے جس پر اب بھی ارضیاتی عمل وقوع پذیر ہورہا ہے۔ زمین کا مائع کرہ آبی تمام سیاروں میں یکتا ہے اور صرف زمین پر ہی ساخت الطبقات Plate tectonics دیکھنے کو ملتی ہیں۔ زمین کی فضاء دیگر سیاروں سے قدرے یگانہ ہے۔ اس میں موجود آبی و دیگر اور خوردہ حیات نے21 فیصد آزاد آکسیجن پیدا کردی ہے جو کسی اور سیارے پر اتنی مقدار میں نہیں پائی جاتی۔ زمین کا اپنا چاند ہے جو دیگر سیاروں کے زیادہ تر چاندوں سے بڑا ہے۔ زمینی چاند کے گرد مہین سی فضاء موجود ہے۔
زمین Earth Image by Maicon Fonseca Zanco from Pixabay |
مریخ Mars
مریخ سورج سے چوتھا قریب ترین سیارہ ہے۔ اس کا سورج سے اوسط فاصلہ 1.5 فلکیاتی اکائیوں پر محیط ہے۔ مریخ زمین اور زہرہ دونوں سے حجم اور کیمیت میں چھوٹا ہے۔ مریخ کی کمیت 0.107 کمیت ارضی ہے۔ مریخ کی فضاء کاربن ڈائی آکسائڈ پر مشتمل ہے اور اس کی سطح پر اولمپس مونس جیسے آتش فشاں پہاڑ اور کھائی نما وادیاں پائی جاتی ہیں۔ یہ آتش فشاں اور گہری کھائیاں گزرے زمانے میں وقوع پذیر ہونے والے ارضیاتی فاعلیہ کی یادگار ہیں۔ مریخ کے دو چھوٹے چھوٹے چاند Demios اور Phobis ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دراصل سیارچے تھے جو مریخ کی کشش ثقل کی گرفت میں آگئے تھے۔
مریخ Mars Image by OpenClipart-Vectors from Pixabay |
سیارچوی پٹی Asteroid Belt
عام طور پر سیارچے چٹانوں، دھاتوں اور ناقابل تبخیر و تصعید Sublimation and vaporization مادوں کے حامل اجرام فلکی ہوتے ہیں۔ سیارچوی پٹی سورج سے 2.3 سے 3.3 فلکیاتی اکائیوں کی دوری پر واقع ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ مشتری کی ثقلی مداخلت کے پیش نظر یہ اجسام فلکی سیارہ بننے سے محروم ہوگئے تھے۔ جسامت کے لحاظ سے سیارچے خورد بینی ذرات سے لے کر چند سو کلومیٹر کی حامل دیوہیکل چٹانوں پر مشتمل ہو سکتے ہیں۔ انتہائی بڑے سیارچوں جیسا کہ سیرس کے علاوہ دیگر سیارچوں کو چھوٹے اجرام فلکی میں شمار کیا جاتا ہے۔ سیرس کے علاوہ سیارچوی پٹی میں نمایاں سیارچہ وِسْطا Vesta ہے۔ شماریات سے ماخوز ہے کہ سیارچوی پٹی میں ایسے ہزاروں سیارچے موجود ہیں جن کا قطر ایک کلومیٹر یا اس سے زائد ہے۔ سیارچوی پٹی کی کل کمیت زمین کے ہزارویں حصے سے کم ہے۔ ایسے سیارچے جن کا قطر 1 ملی میٹر سے لے کر 10 میٹر تک ہے، شہاب ثاقب میں شمار ہوتے ہیں۔
سیارچوی پٹی Asteroid Belt Image by Daniel Roberts from Pixabay |
سیرس سیارچوی پٹی میں سب سے کثیف اور حجم میں سب سے بڑا سیارچہ متصور ہوتا ہے۔ سیرس سورج سے 2.77 فلکیاتی اکائیوں کی دوری پر واقع ہے۔ سیریس کا کل قطر 1 ہزار کلومیٹر سے کچھ کم ہے۔ اس کی کشش ثقل اس قدر شدید ہے کہ اندرونی قوتوں پر قابو پاکر اسے کرے کی شکل دیتی ہے۔ 19 صدی کی ابتدائی ساعتوں میں سیرس کو سیارہ قرار دیا گیا تھا تاہم 1850ء میں سیرس کا درجہ کم کر کے اسے سیارچوں میں شمار کیا جانے لگا۔ 2006ء میں اسے بونے سیاروں کی فہرست میں جگہ مل گئی۔
سیرس Ceres Image by Adis Resic from Pixabay |
سیارچوں کو ان کی مداروی خصوصیات کی بنا پر مختلف گروہوں اور خاندانوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ سیارچہ چاند وہ سیارچے ہوتے ہیں جو اپنے سے بڑے سیارچوں کے گرد گردش کرتے ہیں۔ سیارچوں کے چاند تقریباً مساوی جسم کی وجہ سے پہنچان میں دقیق ہوتے ہیں۔ سیارچوی پٹی میں دمدار ستارے بھی پائے جاتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ زمین پر پانی انہیں دمدار سیاروں کی بدولت جمع ہوا تھا۔ سیارچوی گروہ وسطی نظام شمسی کی سرحد پر واقع ہے۔
سیارچوی گروہ Asteroid Group Image by Oleg Gamulinskii from Pixabay |
اسد صابر
جاری ہے ﴿3﴾
کوئی تبصرے نہیں:
نئے تبصروں کی اجازت نہیں ہے۔