زہرہ Venus
زہرہ Venus Image by Daniel Roberts from Pixabay |
زہرہ ہمارے اندرونی ارضی سیاروں میں سے دوسرا بڑا اور آفتاب کی قربت کے لحاظ سے دوم سیارہ ہے۔ یہ 224.701 زمینی دنوں میں مداروی گردش مکمل کرتا ہے۔ زہرہ کا متبادل انگریزی نام Venus قدیم رومن دیوی وینس کے نام سے مستعار لیا گیا ہے۔ قدیم رومن دیوی محبت و حسن کی دیوی کہلاتی تھی۔ افق پر زہرہ بعد از چاند دوم روشن ترین خلائی جسم ہے۔ زہرہ اس قدر روشن ہے کہ اس کی دمک سایہ بنا سکتی ہے۔ زہرہ افق پر آفتاب کے قریب ہی دکھائی دیتا ہے قبل ازَ طلوع آفتاب اور بعد اَز غروب آفتاب زہرہ کی دمک جوبن پر ہوتی ہے اس لیے اسے صبح و شام کا ستارہ بھی کہا جاتا ہے۔ زہرہ اور زمین کو جڑواں سیاروں کے نام سے پکارا جاتا ہے کیونکہ دونوں سیارے بلحاظ حجم، کشش ثقل اور جسامت باہمی طور پر قریب تر ہیں۔
وینس Venus محبت و حسن کی دیوی Image by Sergei Tokmakov, Esq. https://Terms.Law from Pixabay |
قدیمی پس منظر اور مشاہدہ
زمینی لحاظ سے افق پر زہرہ متواتر منزلیں طے کرتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ مکمل مداروی گردش کے دوران قبل از طلوع آفتاب اور بعد از غروب آفتاب سورج سے افق پر °45 سے °47 درجے بعید ترین زاویہ تشکیل دے سکتا ہے۔ اس دوران افق پر متواتر منزلیں طے کرتے ہوئے قبل از طلوعِ آفتاب طلوع ہونے، سورج کے ساتھ طلوع و غروب اور پھر بعد از غروبِ آفتاب غروب ہونے کے پیشِ نظر قدیم ترین تہذیبیں اسے صبح و شام کے دو الگ الگ ستارے تصور کرتی تھیں اول صبح کا ستارہ اور دوم شام کا ستارہ۔ قدیم چینی صبح کے ستارے کو عظیم سفید ستارہ Tàibái 太白 یا روشنی کا افتتاحی Qǐmíng 啟明 جبکہ شام کے ستارے کو مغربی ستارہ Chánggēng 長庚 کہتے تھے۔ جدید چینی کوریائی، ویتامی اور جاپانی ثقافتوں میں زہرہ دھاتی ستارے کے نام سے منسوب ہے۔ قدیم یونانی بھی زہرہ کو دو مختلف ستارے تصور کرتے تھے، وہ صبح کے ستارے کو افروزہ Φωσφόρος light-bringing کے نام سے پکارتے تھے اور دوم کو زہرہ Ἕσπερος یعنی Evening Star کے نام سے جانتے تھے تاہم قدیم بابلی اور سومیری تہذیب میں صبح اور شام کے ستارے کو بطورِ زہرہ ایک ہی ستارہ مانتے تھے۔ قدیم بابلی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل بابل زہرہ کو چمکدار ملکہ Ninsi anna کے نام سے جانتے تھے۔ Ninsi anna کے حقیقی معنی سرخی مائل جنت کی پاکیزہ خاتون کے ہیں جو سرخی مائل صبح اور شام سے منسوب ہے۔
ایرانی خصوصاً فارسی اساطیری کہانیوں میں زہرہ کا ذکر ملتا ہے، فارسی میں زہرہ کو ناہید کے نام سے منسوب کیا جاتا تھا۔ پہلوی ادب میں زہرہ کا تزکرہ پایا گیا ہے۔ مایا تہذیب میں زہرہ انتہائی زیادہ اہمیت کا حامل رہا۔ مایا تہذیب میں زہرہ کی حرکات پر باقاعدہ ایک مذہبی کیلنڈر تشکیل دیا گیا تھا جس میں زہرہ کی حرکات کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف واقعات مثلاً جنگ وغیرہ کی پیشنگوئی کی جاتی تھی۔ علاوہ ازیں قدیم آسٹریلوی تہذیب میں بھی زہرہ کو اہمیت دی جاتی تھی۔ ہندو ویدک میں زہرہ کا نام شکرا بیان کیا گیا ہے جس کا معنیٰ پاک صاف یا روشن بنتا ہے۔ 6 صدی قبل مسیح میں فیثا غورث نے اسے ایک ستارہ ثابت کیا۔ 1032ء میں ایرانی ستارہ شناس ابن سینا نے زہرہ کے شمسی اختفاء کا مشاہدہ کیا۔ ابن سینا کے مطابق زہرہ کا شمسی اختفاء یہ ظاہر کرتا ہے کہ سورج کی نسبت زہرہ زمین کے قریب تر ہے۔ ابن سینا کے مطابق زہرہ بعض اوقات سورج کے نیچے بھی ہو سکتا ہے۔ ماہر مسلم ستارہ شناس ابو بجاہ نے 12 صدی عیسوی میں سورج کی سطح پر دو دھبوں کا مشاہدہ کیا تھا، بعد ازاں مراغہ کے ستارہ شناس قطب الدین الشیرازی نے خیال ظاہر کیا کہ یہ دو دھبے عطارد اور زہرہ ہو سکتے ہیں تاہم یہ خیال درست نہیں کیونکہ ابو بجاہ کے دور میں زہرہ کے شمسی اختفاء Transit of Venus جیسا واقعہ وقوع پذیر نہیں ہوا تھا۔
17 صدی عیسوی میں پہلی بار ارضی دور بین کی مدد سے اطالوی ماہر فلکیات گلیلیو گلیلی نے زہرہ کے گھٹنے اور بڑھنے کا مشاہدہ کیا۔ زہرہ کا گھٹاؤ اور بڑھاؤ سورج سے مشترک ثقلی نقطہ توازن کے گرد زہرہ کی مداروی گردش کو بیان کرتا تھا۔ اس مشاہدے سے پہلی بار بطلیموس کا دعویٰ رد ہو گیا کہ تمام نظام شمسی زمین کے گرد محوِ گردش ہے۔ زہرہ کی فضاء کی دریافت کا سہرا روسی سائنسدان میخائل لومونوسوف کے سر جاتا ہے جنھوں نے 1761ء میں یہ کارنامہ سر انجام دیا۔ زہرہ کی فضاء کا مشاہدہ جرمن ماہر فلکیات جان شروٹر نے بھی 1790ء میں کیا۔ جان شروٹر نے زہرہ کو ہلال کی شکل میں دیکھا جس کے دونوں کنارے °180 درجے سے زیادہ پھیلاؤ کے حامل تھے۔ جان شوٹر کے مطابق یہ پھیلاؤ روشنی کے انتشار کے باعث تھا جو فضاء کی موجودگی کو ظاہر کرتا تھا۔
زہرہ کی منزلوں کی منظر کشی Statis Kalyvas - VT-2004 programme, attribution, via wikimedia commons |
قبلِ 20 صدی عیسوی زہرہ سے متعلق قلیل معلومات دستیاب تھیں۔ اس وقت زہرہ کے خدوخال کا تفصیلی مشاہدہ نہیں کیا گیا تھا بعد ازاں سپیکٹرو سکوپ، ریڈار اور بالائے بنفشی دور بینوں سے زہرہ کے خدوخال کے مشاہدے کی ابتداء ہوئی۔ 1920ء میں بالائے بنفشی مطالعہ سے وہ خدوخال نمایاں طور پر نظر آئے جن کا مشاہدہ عام دور بین سے قرین قیاس تصور کیا جاتا تھا۔ نمایاں ہونے والے خدوخال عام اور زیریں سرخ روشنی سے دکھائی نہیں دیتے تھے۔ سن 1900ء میں زہرہ کی گردش کا گہرائی میں مطالعہ کیا گیا۔ زہرہ کی منعکس شدہ روشنی کے ڈاپلر شفٹ مطالعہ سے معلوم ہوا کہ باقی سیاروں کی طرح زہرہ کی محوری گردش نارمل نہیں ہے۔ بعد ازاں 1950ء میں زہرہ کے مزید مطالعے سے معلوم ہوا کہ زہرہ دیگر سیاروں کی نسبت گھڑیال موافق محوری گردش سر انجام دیتا ہے۔
1960ء میں سرانجام دیے گئے مشاہدے سے زہرہ کی محوری حرکت کے بارے میں پیمائشی معلومات ملیں جو موجودہ پیمائش کے قریب تر تھیں۔ سن 1970ء میں زہرہ کی جانب مہم جوئی کے دوران سیارے کا ریڈار کی مدد سے مشاہدہ کیا گیا۔ اس سلسلے میں 3 سو میٹر قریبا 1 ہزار فٹ وسیع طشتری کی حامل ریڈیو ٹیلی سکوپ کی مدد سے زہرہ کے دو روشن مقامات دیکھے گئے جنہیں ایلفا اور بیٹا کا نام دیا گیا۔ اسی دوران ایک پہاڑی سلسلہ بھی دریافت ہوا جسے میکسویل مونٹس کا نام دیا گیا۔ زہرہ کی تاریخ میں یہ مقامات قابل ذکر ہیں جن کا اسم مذکر ہے۔ ستارہ شناسی کے اعتبار سے زہرہ کی علامت وہی ہے جو حیاتیاتی طور پر زنانہ جنس کے لیے منسوب ہے یعنی گول دائرہ اور اس کے نیچے چھوٹی سی صلیب۔
اسد صابر
جاری ہے﴿11﴾
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں