افق پر سنسکرت کا ظہور
سنسکرت بلحاظِ قدامت نہایت عمدہ ہیئت کی حامل ہے۔ یہ یونانی و لاطینی سے زائد تکمیل یافتہ، جامع تر، لطیف اور شائستہ ہونے کے باوجود ان سے مشابہ ہے۔ افعالی مخارج اور صرف و نحو کے لحاظ سے یہ مشابہت اس قدر کثیر ہے کہ ان تینوں زبانوں کا سرچشمہ مشترک قرار دیا جاتا ہے اگرچہ وہ مآخذ بذات خود معدوم ہو چکا۔ بعض صوتروں کے مطابق گاتھ قوم کی زبان، سلیٹھی زبان اور قدیم فارسی کا جنم بھی اسی سرچشمے کی پیدوار ہے۔
سر ولیم جونز نے ان خیالات کا اظہار 27 ستمبر 1786ء کو بمقامِ کلکتہ، ایشیاٹک سوسائٹی کے تیسرے سالانہ اجلاس کے دوران کیا۔ یہ ایک ایسی پرکشش آواز تھی جس کی صدائے بازگشت یورپ تک سنائی دی جہاں وقت کے بہترین دماغوں نے اس کی درس و تدریس میں زندگیاں وقف کردیں چنانچہ صدیوں سے تاریخی گِرد میں اَٹی خوبصورت زبان از سر نو زندہ ہو گئی۔ طلوعِ سنسکرت سے تقابلی لسانیات کی بنیادیں استوار ہوئیں۔ سنسکرت اور علم زبان کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ یہ اس قدر گہرا ہے کہ ماہر لسانیات کا قابلِ ذکر حلقہ سنسکرت سے منسلک رہا ہے۔ سنسکرت کی دریافت حادثہ قرار دی جاتی ہے۔ اس ضمن میں کوئی خاص تگ و دو شامل نہیں تھی گویا حالات کے دھاروں نے خودبخود اسے مغربی شائقینِ علم کے روبرو لا پھیکنا جنھوں نے بنا دیری کے اپنے دامنوں میں ڈال لیا۔ 18 صدی عیسوی کے وسط تک برطانیہ اور فرانس کے مابین ہندوستان کی جاں بلب لاش پر قبضے کے جنوں میں رسہ کشی عروج پر تھی۔ اسی اثناء میں بہت سے فرانسیسی و انگریزی طلباء جہد البقاء یا مہم جوئی کی غرض سے ہند میں وارد ہوئے جہاں قدرتی طور پر ان کا پالا سنسکرت سے پڑا۔ اولاً فرانسیسی پادری یسوعی Jesuit نے فرانسیسی تعلیمی ادارے کی جانب یاداشت روانہ کی۔ اس یاداشت میں لاطینی اور سنسکرت میں مماثلت کا ذکر کیا گیا تھا تاہم ادارہ مزکورہ نے اسے خاص اہمیت نہ دی یوں طویل چالیس سالہ مدت کے بعد اولین نقل شائع ہوئی۔ اسی اثناء میں یورپی حلقوں میں سنسکرت سے متعلق کافی دلچسپی پیدا ہوچکی تھی۔
ایک نیک دل خاتون ٹھرکیوں کو تعلیم کی جانب راغب کرتے ہوئے Image by Екатерина Александровна from Pixabay |
تقابلی لسانیات کی بنیاد
یورپ کی سنسکرت سے شناسائی سر ولیم جونز کی مرہون منت ہے۔ سر ولیم جونز زمانہ طالب علمی سے ہی علم اللسان میں طبع آزمائی کےلئے سرگرداں تھے۔ انہیں محض 24 برس کی عمر میں دس متفرق زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ ان زبانوں میں لاطینی، یونانی، عربی، عبرانی اور فارسی قابل ذکر ہیں۔ انھوں نے بطور ذریعہ معاش وکالت کو اپنایا اور 1873ء میں کلکتہ کی سپریم کورٹ میں جج مقرر ہوئے۔ سنسکرت سے شناسائی کے بعد زبان میں دلچسپی اس قدر بڑھی کہ ماہر سنسکرت سر چارلس ولکنز کے اشتراک سے ایشیاٹک سوسائٹی کلکتہ کی بنیاد رکھ ڈالی۔ یہ برصغیر میں اپنی نوعیت کا واحد ادارہ تھی۔ اگرچہ سر ولیم جونز نے صریح الفاظ میں آریائی لسانی گروہ میں باہم مماثلت اور یکساں مآخذ سے مشتق ہونے کا نظریہ پیش کردیا تھا تاہم زندگی کے روٹھ جانے سے یہ تفصیل طلب موضوع تشنہ تکمیل ہی رہ گیا۔ فیڈرک شلیگل نے 1808ء میں ”اہل ہند کی زبان اور حکمت“ نامی تصنیف شائع کی جس میں سر ولیم جونز کی تجویز کے پیشِ نظر سنکسرت کا یونانی زبانوں سے تفصیلی موازنہ کیا گیا تھا۔ ان کے مابین الفاظ اور صرف و نحو کے مماثلاتی مطالعہ نے اس خیال کو جنم دیا کہ یونانی زبانوں اور سنسکرت کے درمیان ایک گہرا رشتہ و یک گونہ مطابقت موجود ہے۔ فیڈرک وہ پہلی شخصیت تھی جس نے تقابلی لسانیات کی اصطلاح متعارف کروائی۔ شلیگل سے متاثرہ شخصیات میں فرانز بوپ سرِفہرست ہیں جنھوں نے شوقِ جنوں و قابلیت کے بل بوتے پر حکومت باویریا سے وظیفہ وصول کیا۔ وہ 1812ء میں مطالعے کے سلسلے میں پیرس تشریف لے گئے اور 4 سالہ گہرے مطالعے سے ”فارسی اور یورپی زبانوں کا سنسکرت سے موازنہ“ نامی تصنیف مرتب کی۔ اس تصنیف میں بوپ نے دلائل و براہین کی رو سے اس امر کو پایہ ثبوت تک پہنچایا کہ سنسکرت، فارسی و دیگر یورپی زبانوں کا مآخذ یکساں ہے جسے ”قدیم آریائی زبان“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ سن 1822ء میں فرانز بوپ برلن یونیورسٹی میں سنسکرت اور شعبہ صرف و نحو کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ 1866ء میں ان کی لازوال خدمات کے اعتراف میں لسانیات سے متعلق ”بوپ“ ادارہ قائم کیا گیا۔ ادارہ ”بوپ“ کی کاوشوں سے لسانیات صفِ اول کے سائنسی علوم میں شمار ہونے لگی۔ اس ادارے نے علم زبان سے منسلک تاریخی شخصیات کو جنم دیا۔ ایک جانب ادارے سے فارغ التحصیل میکس مولر نے برطانیہ میں لسانیاتی مطالعے کی بنیاد ڈالی تو دوسری جانب ولیم وہٹنے نے امریکی سرزمیں پر علم اللسان کو جلا بخشی۔
اسد صابر
جاری ہے﴿2﴾
بہت خوب۔ 👍 🖤
جواب دیںحذف کریں