لسانیات کی تاریخ
علم اللسان کی ابتداء انسانی شعور میں لسانی آگاہی کے متعلق سوچ کے پنپنے سے ہوئی۔ زبان کو جاننے کی اس شعوری کوشش نے قدیم لسانی اصول و ضوابط اور فرضی داستانوں کو جنم دیا۔ معاشرے میں زبان کی ابتداء سے متعلق یہ متفرق فرضی داستانیں آج بھی موجود ہیں۔ یہ ناقابلِ تصدیق فرضی داستانیں مخصوص مذہبی و ثقافتی دائرہ کار میں محدود ہیں چنانچہ ان سے آفاقی و معروضی نتائج کا حصول نا گزیر ہے۔ لسانی حقائق کو پانے کےلیے آفاقیت اور معروضیت ضروری ہے جس کےلیے سائنسی طریق اور اصول و ضوابط کا سہارا لیا جاتا ہے۔ علم زبان کے قدیم ترین آثار بابل میں پائے گئے ہیں۔ روایت ہے کہ بابل کے مشہور مندر " ٹاور آف بابل" میں متفرق نسلوں اور زبانوں سے تعلق رکھنے والے افراد جمع ہوتے جہاں مختلف زبانوں کا باہمی تقابل کیا جاتا، بابل سے تقابلی لسانیات سے متعلق قدیم تحریری نمونوں کی دریافت اس پر دال ہے۔ اہل بابل کی زبان اکاوڈین کے نام سے موسوم ہے جو 17 صدی قبل مسیح میں مفقود ہو گئی چنانچہ جب دوسری اقوام بابل میں رہائش پذیر ہوئیں تو انہیں اکاوڈین کو سمجھنے کے لیے لغات اور قواعد تحریر کرنے پڑے۔ اس فعل کےلیے مشترک مادوں کی چھان بین شروع کی گئی جو علم زبان کا بنیادی اصول ہے۔ اہل بابل کی جانب سے مشترک مادوں کا حصول اولین لسانی کاوشوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ بعد ازاں ہندوستانی قواعد نویسی کا دور آتا ہے۔ بدھ مت اور جین مت کے عروج سے ویدک زبان متروک ہوئی اور پراکرتوں کو تحریری و علمی زبان کا درجہ حاصل ہونے لگا چنانچہ ہندو علماء نے سنسکرت کی تشکیل نو کےلیے قواعد نویسی کا آغاز کیا۔ اس ضمن میں پانینی سرفہرست ہیں جنھوں نے چوتھی صدی قبل مسیح میں "اشتھا دھیا" تصنیف کی۔ بعد ازاں پتنجلی نے مہا بھاشیہ میں پانینی کے وضع کردہ اصولوں کی توضیح و تشریح کی۔ جہاں تاریخِ انسانیت کے لازوال جھروکوں میں لسانیات ارتقاء پذیر تھی وہیں متفرق فرضی داستانیں بھی ساتھ ملحق رہیں۔ ان داستانوں کے زیرِ سایہ عظیم یونانی فلاسفر افلاطون، مافوق الفطرت لسانی مآخذ کے حامی نظر آئے۔ اگرچہ وہ کچھ متذبذب تھے کہ آیا زبان کے اولین الفاظ کیسے اور کن اصول وضوابط کے تحت وضع کیے گئے تاہم کسی منطقی نتیجہ پر نہ پہنچ سکے۔ منطقی نتائج کے حصول میں ناکامی کی وجہ غیر ملکی زبانوں سے ناواقفیت تھی جس بناء پر وہ متفرق زبانوں میں باہم تقابل سے قاصر رہے جس کے بغیر لسانی تخلیق کے پس پردہ کار فرما محرکات تک رسائی محال ہے۔ اس امر کا اظہار خود ان کے پیش رو سقراط نے کیا۔ سقراط کے مطابق یونانی زبان میں دخیل غیر ملکی الفاظ پڑوسی اقوام کی دین ہیں۔ زبان کی اصل سے آگاہی کےلیے ان الفاظ کا معروضی جائزہ ضروری ہے تاہم اہل یونان پڑوسی زبان سے ناواقفیت کی بناء پر تحقیق و تدوین سے قاصر ہیں۔ یہ لاعلمی قائم رہی تاآنکہ اُفقِ مغرب پر سنسکرت طلوع نہ ہوئی۔
لسانیات کی تاریخ Image by Peace,love,happiness from Pixabay |
18 صدی عیسوی میں پہلی بار اس خیال نے زور پکڑا کہ لسانی تخلیق مافوق الفطرت نہیں بلکہ عین فطری ہے۔ اس پہلو میں انقلابی انشاپرداز روسو کی تصانیف قابل ذکر ہیں۔ اگرچہ ان تصانیف میں افلاطون کی طرح تذبذب کی سی کیفیت پائی جاتی ہے لیکن ساتھ ہی زبانوں کو قدرتی امور کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے۔ اس صدی کا اہم ترین واقعہ نظریہ ارتقاء Theory of Evolution کا ظہور تھا۔ اس نظریے نے انسانی تصورات کو سحر انگیز حد تک متاثر کیا جس کا صحیح ادراک نہایت دقیق ہے۔ قدیم دور میں کائناتی عوامل، مظاہر اور اشیاء کی تشکیل کو مافوق الفطرت مآخذ کی کارستانی قرار دیا جاتا تھا تاہم نظریہ ارتقاء کے ظہور پذیر ہوتے ہی تحقیق و جستجو نے شعوری دروازے پر دستک دیتے ہوئے انسانی تصورات کا رخ بدل دیا۔ یہ کائنات محض چھومنتر کا نتیجہ نہیں تھی اسے پنپنے میں اربوں صدیاں لگیں تھی جس کے پیچھے کائناتی قوانین و محرکات کار فرما تھے۔ نظریہ ارتقاء کی بدولت انسان نے حیاتیات، طبیعیات، علم کیمیاء، ارضیات و دیگر شعبہ جات کو تحقیقی آماجگاہ بنا لیا جو نت نئی ایجادات و دریافت کا سبب بنا۔ آئندہ دوصدیوں میں تیز تر ہوتی ترقی کی شرح نے سائنس، فن اور انجینئرنگ میں انقلاب برپا کر دیا۔ اس ضمن میں اہم پیشرفت اس وقت ہوئی جب انسان نے چاند پر کمند ڈالی، یہ کامیابی علمِ انسانی کے بتدریج ارتقاء کا ثمر تھی۔ نظریہ ارتقاء انسانی زبان پر بھی اثرانداز ہوا اور حقیقی معنوں میں علم زبان کو جلا بخشی۔ ما قبلِ الفریڈ والس اور سر چارلس ڈارون نظریہ ارتقاء کی قدیم جھلک ارسمس ڈراون، لامارک، کانٹ، ہرڈر اور گوئٹے کی تحریروں میں پائی گئی ہے۔ علاوہ ازیں مشہور سائنسدان اور ماہر ریاضی کانٹ کی اولین تصنیف "اجرام فلکی کی حقیقت اور متعلقہ نظریات کی تاریخ" میں اس امر کا اظہار موجود ہے کہ عالم کائنات مخصوص قدرتی اصولوں کے تحت بتدریج ارتقاء پذیر ہوا۔ تصنیفی متن میں مقبول ارتقائی پہلو مثلاً انتخابِ خصوصی بقائے اصلح، جہدللبقاء، ماحولیاتی اثرات اور وراثتی خصوصیات واضح مزکور ہیں چنانچہ بعد میں سر چارلس ڈارون نے اس سے استفادہ حاصل کیا۔ گوئٹے فلسفی شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک زبردست محقق کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ وہ نظریہ ارتقاء کے زبردست حامی تھے جس کا عملی مظاہرہ روح ارضی کے نغمہ میں نمایاں ہے۔ علم اللسان میں واضح سائنسی رو سے تحقیق کا آغاز 1722ء میں جاہن گاٹفرائیڈ ہرڈر کی مشہور تصنیف "زبان کے مآخذ" شائع ہونے سے ہوا۔ ہرڈر ماہر ریاضی کانٹ کے شاگرد اور گوئٹے کے قریبی عزیز تھے۔ گوئٹے سے ان کی ملاقات 1770ء میں ہوئی بعد ازاں 1776ء میں ہرڈر نے گوئٹے کی صحبت اختیار کر لی اور 1803ء میں وفات پائی۔ ہرڈر وہ شخصیت تھی جنھوں نے منطقی بنیادوں پر زبان کو طویل انسانی کاوشوں اور جدوجہد کا ثمر قرار دیا۔ ہرٹز کے مطابق 1722ء تک غیر ملکی زبانوں کا سرمایہ اس قدر قلیل اور مشکوک ہے کہ اس سے صحیح معنوں میں تقابلی لسانیات کا وجود میں آنا ناممکن ہے۔ شاید اسی قلت کی بدولت صلاحیت کے باوجود وہ حقیقت کی تہہ تک پہنچنے میں ناکام رہے۔
اسد صابر
جاری ہے﴿13﴾
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں