لسانیاتی ڈارونیت
جرمن ماہرِ لسانیات و فلاسفر میکس مولر اور امریکی ماہر السنہ ولیم وہنٹے کا شمار فرانز بوپ کے قابل ترین شاگردوں میں ہوتا ہے۔ مولر اور وہنٹے نے گزشتہ سات دہائیوں کی گِرد میں اَٹے پڑے لسانیاتی مواد سے اخذ شدہ نتائج کا مجموعہ عوام کے روبرو پیش کیا۔ ان کا اندازِ بیان اس قدر سادہ اور طرزِ تحریر یوں شگفتہ تھا کہ لسانیات جیسے خشک موضوع کو ناول جیسی تفہیم عطا کردی چنانچہ ان کی مضمون نگاری نے عوامی حلقوں میں بے حد مقبولیت پائی۔ میکس و وہنٹے کی جانب سے طبع آزمائی شاندار نتائج لائی۔ انہیں تحقیقات کا ثمر تھا کہ انسانی تاریخ و ارتقاء سے متعلق کئی راز ہائے سربستہ لاعلمی کے دبیز پردے اٹھنے سے نوزائیدہ سائنس کی وقعت میں گراں قدر اضافہ ہوا۔ میکس مولر کی جائے پیدائش جرمنی تھی۔ جرمنی میں ابتدائی تعلیم کے بعد مولر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے لیپزگ Leipzig یونیورسٹی میں تشریف لے گئے۔ وہاں انھوں نے فرانز بوپ کی سرکردگی میں تقابلی لسانیات اور شیکنگ سے فلسفے پر عبور حاصل کیا۔ لیپزک سے فارغ التحصیلی کے بعد مولر نے باقی ماندہ زندگی آکسفورڈ میں درس وتدریس اور تصنیف و تالیف میں بسر کر ڈالی۔ یہ لسانیاتی نصب العین اور نظریات کے معاملے میں سر چارلس ڈارون کے حامی تھے تاہم نت نئی حصولِ دریافت کے پیشِ نظر ان کی تصانیف میں ٹھوس پن کا فقدان رہا جو ڈارون ازم میں پایا گیا۔
امریکی ماہرِ زبان ولیم وہنٹے نے ییل Yale یونیورسٹی سے سنسکرت پر عبور حاصل کیا بعد ازاں مذید تعلیم کے حصول کے لیے برلن یونیورسٹی سے وابستہ ہوئے۔ ولیم تین سالہ مطالعے کے بعد امریکہ لوٹے جہاں انہیں شعبہ سنسکرت میں پروفیسر مقرر کر دیا گیا۔ 1870ء میں بوپ ادارہ کی جانب سے اہم تحقیات کے پیشِ نظر اول انعام کے حقدار ٹھہرے۔ ان کی تصانیف "زبان اور اس کا مطالعہ" اور "زبان کی پیدائش و نشونما" قابلِ ذکر ہیں۔ یہ تصانیف اپنی مخصوص مقبولیت اور افادی حثیت کی بدولت دنیا بھر میں جانی جاتی ہیں۔
لسانیاتی ڈارونیت
رابرٹ چارلس ڈارون کا شمار ان مشہور شخصیات میں نمایاں ہے جنھوں نے انسانی خیالات کے دھارے کا رخ موڑ دیا۔ ڈارون کے نظریات انسانی حیات کے تمام پہلوؤں میں سموئے ہوئے ہیں۔ بقول ڈینس اس بعطل جلیل نے انسانی نظریات کو مرکز ثقل سے ہلا ڈالا گویا شہنشاہیت کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا۔ چارلس ڈارون 12 فروری 1809ء کو انگلستان کے شہر شریوزبری میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد ایڈنبرا یونیورسٹی سے طبی تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں 22 سال کی عمر میں دنیا کے گرد رخت سفر باندھا۔ سفر کے دوران انھوں نے بے شمار حیاتیات کے معروضی مشاہدے کی صورت میں نظریہ ارتقاء کا ابتدائی نمونہ پیش کیا۔ سائنسی حلقوں میں نظریہ ارتقاء کو مسلمہ حقیقت کا درجہ حاصل ہے۔ ان کی تصانیف میں اصل الانواع Origin of species خاص اہمیت کی حامل ہے۔
لسانیاتی ڈارونیت Image by Andrew Martin from Pixabay |
ڈارون کے نظریات اس قدر ہمہ گیر اور وسیع ہیں کہ ان کا احاطہ درکنار، جائزہ لینا ناممکنات میں شمار ہوتا ہے۔ ڈارون کے نظریات میں جہد للبقاء اور بقائے اصلح کو خاصی اہمیت حاصل رہی ہے۔ اس کے تاریک رُخ کے ساتھ ساتھ تابناک پہلو، عوامی حلقوں میں جہد للحیات کے احساس کا اجاگر ہونا ہے۔ اثر پذیری کا عالم یہ ہے کہ اشتراکیت کے بانی کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز فضوں حد تک ڈراون ازم کے سحر میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ جہد للبقاء کا احساس جِن جِن قوموں کے نظریات کی زینت بنا انھوں نے جدوجہدِ آزادی میں جی جان لگا دی چنانچہ غلامی کی زنجیریں یکے بعد دیگرے ریزہ ریزہ ہوتی گئیں اور یہ سلسلہ تادیر قائم ہے۔ حیوان ناطق و حیوان مطلق کے معاملے میں مولر اور ڈارون میں تفریق موجود ہے۔ میکس مولر کے مطابق انسان و حیوان میں اہم ترین حد فاصل زبان ہے۔ ولیم وہنٹے مولر کے تائیدی نظر آتے ہیں جن کی رو سے بنی نوع انسان کا ہر گروہ ایک مخصوص اور مشترک زبان کا حامل ہے تاہم یہ امر دیگر ذی حیات کا خاصہ نہیں ہے، دیگر ذی حیات میں آوازوں کے تاثرات ہرگز زبان کے زمرے میں نہیں آتے۔ اس کے برعکس ڈراون کی نظر میں زبان جرثوموں سے لے کر انسان تک کُل ذی حیات کا مشترکہ اثاثہ ہے۔ انھوں نے شہرہ آفاق تصنیف "انسان کا سلسلہ نسب" میں اس نظریہ کو کچھ یوں بیاں کیا ہے۔
عرصہ دراز سے انسان و حیوان میں اہم ترین حد فاصل زبان کو قرار دیا جاتا رہا ہے تاہم اپنے تاثرات و خیالات اور باطنی کیفیات کے زبانی اظہار پر محض بنی نوع انسان ہی قادر نہیں بلکہ دیگر ذی حیات مثلاً چرند، پرند اور حیوانات بھی قدرت رکھتے ہیں
اس ضمن میں ڈراون نے ٹھوس معروضی مشاہدات کے ذریعے ثابت کیا کہ کیسے دیگر انواع آوازوں کو کام میں لاتی ہیں مثلاً شیر کا علاقائی حدبندی کےلیے دھاڑنا، تنبیہ کےلیے غُرّرانا، بوقتِ خطرہ کوؤں کا شور مچاتے ہوئے خبردار کرنا، صبح کی نوید میں مرغ کا بانگ دینا، وہیل کی صوتی لہروں کے ذریعے گفت و شنید اور خطرہ بھانپ کر نیولے کا آوازیں کسنا وغیرہ۔ ڈارون کے مطابق انسان اور حیوان میں لسانیاتی تفریق نوعی حثیت کی بجائے ذہنی نشوونما پر منحصر ہے۔ مولر اور اس کے حواریوں کا ماننا تھا کہ واضح انسانی زبان اس کی قوت متمیزہ کا احسن ثبوت ہے لیکن ڈراون کی رو سے حیوانی انواع بھی قوت متمیزہ کی حامل ہیں جس کے پیش رو ناقابل تردید معروضی مشاہدات موجود ہیں۔ یہ معروضی مشاہدات کا انبار رائے عامہ کے سیلاب کو ساتھ بہا کر لے گیا چنانچہ مخالف آواز صدائے تحسین و آفرین میں گم ہو کر قصہ پارینہ بن گئی، گویا وہ کبھی تھی ہی نہیں۔ ڈارون کی فہم و فراست نے لسانیات کی تاریخ پر سحر انگیز نقوشِ مرتب کیے جس کا ثمر لسانیاتی سائنس کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔
اسد صابر
جاری ہے﴿4﴾
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں