تعصب سے بالاتر سائنسی، فنی اور سماجی حقائق جو فکری جمود کو توڑیں اور شعور کو جلا بخشیں

آؤ کچھ سیکھیں

test

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

اتوار، 12 مارچ، 2023

اشاراتی لسانیات

                   اشاراتی لسانیات

اشاراتی لسانیات
Image by Bernd from Pixabay


لسانیاتی تحقیق و تدقیق کا تسلسل جاری و ساری ہے۔ اس سے اَن گِنت شاخائیں پھوٹیں جو وقتی دھارے کے ہمراہ تناور درخت کی شبیہ اختیار کر گئیں۔ اسی سلسلے کی ایک شاخ اشاراتی لسانیات کے نام سے مرسوم ہے۔ یہ زبان کی ابتداء سے متعلق ہے جس کے بانی موسیو ڈی کیمپلن خیال کیے جاتے ہیں۔ کیمپلن کے مطابق زبان کی ابتداء اشاروں سے ہوئی۔ 1792ء کو شائع کردہ تحقیقی ثمر ”زبان اور اس کے میکانیکی پہلو“ میں انھوں نے زبان کی ابتداء، اشاروں سے اخذ شدہ جذبات و احساسات کا اظہار بتایا جب قدیمی انسان نے ہاتھوں کی بجائے ہونٹ، زبان اور منہ کے دیگر اعضاء کو کام میں لانا شروع کیا۔ مزید برآں ڈاکٹر رائے 14 ہزار الفاظ کی جان پرکھ کا تحقیقی نچوڑ ”پالی نیشیا کی زبان“ کی صورت میں سامنے لائے جس میں الفاظ کی قدیم صورت محض کسی سرزد ہونے والے فعل کا چربہ قرار دی گئی تھی۔ ان کی رائے میں ہونٹ زبان اور منہ کے ذریعے کسی فعل یا شے کی نقل اتارتے کی کوشش تھی جو زبان کی ابتداء کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ قدیم ترین زبان یک رکنی الفاظ پر مشتمل تھی جن سے قوت، شکل اور حرکت کا اظہار مقصود ہوتا تھا۔ ڈاکٹر رائے کے بعد الفریڈ رسل کا نام سر فہرست آتا ہے۔ وہ 1895ء میں ایک مضمون کی تحریر میں کچھ یوں گویا ہوئے


عموماً مشاہدہ اس پر دال ہے کہ ہونٹ، جبڑوں اور زبانی اشاروں کے الفاظ کی بناوٹ سے گہرے مراسم قائم ہیں گویا اشاروں یا حرکات سے پیدا شدہ آواز متعلقہ شے یا فعل سے منسوب ہے۔ مثلاً جب up ہونٹوں پہ لایا جائے تو جبڑا اوپری جانب حرکت کرتا ہے تاہم down کی صورت میں زیریں جانب آتا معلوم ہوتا ہے، درحقیقت یہی اشاراتی عنصر انسانی زبان کی تخلیق کا ماخذ ہے


آئس لینڈ یونیورسٹی کے سابق چانسلر الیگزینڈر جاہنسن وہ معروف شخصیت ہیں جنھوں نے اشاراتی لسانیات کو صحیح معنوں میں سائنسی جلا بخشی۔ وہ سن 1943ء میں خطاب کے دوران سامعین سے کچھ یوں مخاطب ہوئے


آئس لینڈ اور آریائی مآخذ کے بالترتیب 20 ہزار اور ڈھائی ہزار الفاظ کا تحقیقی ثمر منہ سے سرزد شدہ وہ اشارے ہیں جن میں افعال سرانجام دیتے وقت حرکاتِ الید کی نقالی کی گئی تھی


مثلاً اُردو کا لفظ کاٹ لے لیجیے، ”کا“ کی آواز نکالتے وقت جبڑا اوپری جانب حرکت کرتا ہے اور”ٹ“ آواز کے ساتھ نیچے گرتا ہے جیسے کلہاڑا ہوا میں اُچھالا اور پھر کھٹ سے درخت کے تنے پر دے مارا۔

                               اسد صابر

                                                    جاری ہے﴿5﴾

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad

Your Ad Spot

۔۔۔۔